جمعرات 26 جون 2025 - 15:25
عزاداری، درسِ معرفت اور چراغِ ہدایت

حوزہ/ کیا عاشورا کو صرف ایک تاریخی اور سیاسی واقعے کے طور پر دیکھنا ممکن ہے، جبکہ اس کے جذباتی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جائے معرفت اور احساسات کے درمیان ہم آہنگی، عاشورا کے پیغام کی بقا اور اس کے اثر کی پائیداری میں بہت اہم کردار رکھتی ہے، اور اسی موضوع پر اس گفتگو میں وضاحت کی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I واقعۂ عاشورا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جو بے شمار سبق اور عبرتیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ واقعہ ایک طرف سے تاریخی و سیاسی پہلو رکھتا ہے اور دوسری طرف سے روحانی و انسانی پہلوؤں کا حامل بھی ہے۔

ان دنوں یہ سوال کچھ حلقوں میں اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بہتر نہیں کہ ہم روایتی عزاداری اور جذباتی انداز کی بجائے، عاشورا پر علمی تجزیے اور کانفرنسیں منعقد کریں تاکہ اس واقعہ کو گہرائی سے سمجھا جا سکے؟

اسی سوال کے جواب کے لیے "مرکز ملّی برائے دینی سوالات" کے ماہر حجت‌الاسلام علی اکبر عبادی‌نیک سے گفتگو کی گئی۔ انہوں نے انسانی فطرت، دینی تعلیمات اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کی روشنی میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا۔ ان کے بیانات کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا بہتر نہیں کہ ہم عزاداری اور جذباتی پہلوؤں پر کم توجہ دے کر عاشورا کو علمی انداز میں سمجھنے کے لیے سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کریں؟

اس کے جواب میں عرض ہے کہ انسان کی فطرت میں دو بنیادی پہلو ہوتے ہیں: ایک بینش یعنی فہم و معرفت، اور دوسرا گرایش یعنی احساسات اور جذبات۔

اگر ہم کسی انسان یا معاشرے کو کسی نیکی یا اعلیٰ مقصد کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ اس کی عقل و معرفت کے ساتھ ساتھ اس کے جذبات و احساسات کو بھی مخاطب بنائیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم اپنے بچے کو نماز پڑھنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں تو صرف اس سے فلسفہ نماز بیان کر دینا کافی نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ ہم اس کے دل میں محبت اور رغبت بھی پیدا کریں تاکہ وہ عبادت سے جُڑ جائے۔ اسی صورت میں یہ معرفت پائیدار اور گہری ہو سکتی ہے۔

جذبات، معرفت کو گہرائی اور پائیداری عطا کرتے ہیں۔ جب کوئی بات ہماری عقل کے ساتھ ساتھ دل سے بھی جُڑ جائے، تو وہ ہماری شخصیت میں رچ بس جاتی ہے۔ اگر صرف ذہنی علم ہو لیکن اس سے جذباتی تعلق نہ ہو، تو ایسا علم زیادہ دیر باقی نہیں رہتا۔

آپ نے شاید ایسے افراد دیکھے ہوں گے جو نماز کے وجوب، فلسفہ اور فوائد سے بخوبی واقف ہیں، لیکن چونکہ نماز سے محبت اور جذباتی تعلق پیدا نہیں ہوا، اس لیے وہ باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے۔

اہل بیت علیہم السلام نے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے، عاشورا کے واقعے کو صرف علمی موضوع نہ رہنے دیا بلکہ اسے شیعہ دلوں سے جوڑنے کے لیے ایک گہرا جذباتی رشتہ قائم کیا۔ اسی لیے عزاداری کو رواج دیا تاکہ یہ واقعہ نسل در نسل، دلوں میں زندہ رہے۔

لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ صرف گریہ اور ماتم پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ عاشورا کے علمی، فکری اور تربیتی پہلوؤں پر بھی غور و فکر کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیمینار، تقریریں، مجالس، کتابیں اور مقالات کی اشاعت ضروری ہے تاکہ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور عاشورا کے پیغام کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

لیکن اگر اس علمی پیغام کو دلوں میں اُتارنا ہے تو اس کے لیے جذباتی تعلق بھی لازمی ہے، اور عزاداری اس تعلق کا مظہر ہے۔ جب ہم امام حسینؑ کے غم میں روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، تو صرف ایک رسم ادا نہیں کرتے، بلکہ اس واقعے کو دل میں اُتار لیتے ہیں۔ یہ رونا، سینہ زنی، نوحہ خوانی... سب کچھ ہماری معرفت کو گہرا اور زندہ رکھتا ہے۔

عاشورا کا پیغام اگر چودہ سو سال سے باقی ہے تو اس کی اصل وجہ یہی جذباتی و روحانی پیوند ہے جو عزاداری کے ذریعے قائم ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں دونوں پہلوؤں کی ضرورت ہے: علمی و فکری پہلو، جو خطبات، دروس اور کتابوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے؛ اور جذباتی و روحانی پہلو، جو گریہ و ماتم اور عزاداری کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

یہ دونوں ایک دوسرے کے مکمل اور لازمی ساتھی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عاشورا کا پیغام ہماری نسلوں تک زندہ رہے، تو ہمیں عقل و دل دونوں کو مخاطب بنانا ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha