اتوار 29 جون 2025 - 09:27
ہم امام حسینؑ پر کیوں گریہ کرتے ہیں؟

حوزہ/ جب محرم آتا ہے اور امام حسین علیہ السلام کا ذکر ہوتا ہے تو ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے، ہر دل غم میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم گریہ کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ آنسو صرف روایت کی پیروی ہیں یا ان کے پیچھے کوئی گہری معنویت پوشیدہ ہے؟

حوزہ نیوز ایجنسی I انسان کی فکری اور روحانی ترقی اس کی خوشی اور غم، ہنسی اور گریے تک کو معنی عطا کر دیتی ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا رشد و فہم حاصل کریں تو ہماری مسکراہٹیں اور آنسو، ہمارے اندر کے ارتقاء کی علامت بن سکتے ہیں۔

عرب کے ایک خوش ذوق اور بافضل شاعر "اعثم کوفی" کے چند اشعار امام حسینؑ کے بارے میں نقل ہوئے ہیں، جن میں سے ایک شعر نہایت عارفانہ اور قابلِ تأمل ہے۔ وہ امام حسینؑ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: "اے فرزندِ رسول، اے علی مرتضیٰؑ کے لختِ جگر! میری آنکھیں تیرے لیے گریہ کرتی ہیں، لیکن نہ کسی اجر و ثواب کے لیے اور نہ ہی کسی انعام کی امید میں، بلکہ میرا دل اور روح خود تیرے وجود کی طرف متوجہ ہے۔"

یہ شعر ایک بلند روحانی مقام کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں انسان کا دل و جان کسی لذت، درد، اجر یا خوف کے بغیر صرف حقیقت کی طرف جذب ہو جاتا ہے۔ یہ وہ بلند ترین قُلہ ہے جہاں انسان، خالص معرفتِ الٰہی اور عشقِ حقیقی سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسان حقیقی طور پر "اللہ اکبر" کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔

اسی کیفیت کو مولائے کائنات علیؑ نے بھی یوں بیان فرمایا: "پروردگارا! میں تیری عبادت نہ جنت کی لالچ میں کرتا ہوں، نہ جہنم کے خوف سے، بلکہ اس لیے کہ تو عبادت کے لائق ہے۔"

جب علیؑ کی عبادت خالص معرفت پر مبنی ہو سکتی ہے تو کیا حسینؑ انسانوں کو اپنے جذب کی قوت سے اللہ کی طرف نہیں کھینچ سکتے؟ وہ حسینؑ جس نے انسانوں کے دلوں کو اس طرح اپنی جانب متوجہ کیا کہ صدیاں گزر گئیں مگر دلوں سے محبت کم نہ ہوئی۔

ہم ہر سال عاشورا کے ایّام میں مجالس اور ماتم میں شریک ہوتے ہیں۔ مقررین اور علما بارہا گریہ بر حسینؑ کے فضائل بیان کرتے ہیں اور یہ بات درست بھی ہے، کیونکہ کثیر احادیث اس پر وارد ہوئی ہیں کہ حسینؑ پر بہایا گیا ایک آنسو بھی عظیم ثواب کا باعث ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے:

جب آپ نے عاشورا کی کسی مجلس میں سوز و گداز کے عالم میں گریہ کیا، تو آپ کا دل کس طرف متوجہ تھا؟ جنت کی امید میں؟ یا خود حسینؑ کی طرف؟

اگر آپ کا دل خود حسینؑ کی طرف تھا، تو یہ علامت ہے کہ آپ کا نفس ایک بلند روحانی مقام پر فائز ہو چکا تھا، کیونکہ آپ کا تعلق اس وقت کسی کامل ترین انسان سے جُڑا ہوا تھا۔

حسینؑ، ولیّ اعظمِ خدا ہیں۔ اگر کسی انسان نے ان پر صرف ان کے لیے گریہ کیا، بغیر کسی دنیوی یا اخروی توقع کے، تو اس نے حقیقت میں "ایاک نعبد" (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں) کے ذائقے کو چکھ لیا۔ دعا کرنا بجا ہے۔ دنیا و آخرت کے امور کے لیے دعا مستحب اور مفید ہے، لیکن گریہ کا مقام دعا سے بلند ہے۔

کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ: "میں نے حسینؑ پر گریہ کیا، اے خدا! مجھے اس کے بدلے ایک قیمتی قالین عطا فرما!"

حسینؑ کے لیے جو گریہ دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے، وہ کسی قالین، مکان یا دولت کے بدلے میں نہیں کیا جاتا۔ یہ گریہ معرفت کے گہرے جذبات سے پیدا ہوتا ہے۔ نماز کے بعد ہم دنیا و آخرت کے لیے دعا کرتے ہیں، لیکن نماز کے دوران "اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ" کہنا کوئی مادی بینک اکاؤنٹ بڑھانے جیسا کام نہیں ہے۔ اس کا مفہوم ہی جدا ہے۔

اسی طرح حسینؑ ہمیں وہ درس دیتے ہیں کہ ہم "ایاک نعبد" کی حقیقت تک پہنچ سکیں۔ اگر کوئی کہے: "اے حسین! میں صرف تیرے لیے گریہ کرتا ہوں، نہ کہ کسی ثواب یا صلہ کی امید میں!" تو وہ درحقیقت اس معرفت کی معراج پر پہنچ چکا ہے جو حسینؑ ہمیں دینا چاہتے تھے۔

حقیقی توحید کی راہ کوئی دور دراز وادی نہیں ہے۔ خدا ہم سے قریب ہے۔ اگر انسان میں بالکل بھی استعداد نہ ہو تو شاید یہ راستہ اس پر بند ہو، لیکن اگر فطرت بیدار ہو تو فلسفہ، عرفان یا ادبیات پڑھے بغیر بھی حسینؑ ہمیں اس راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

یہی حسینؑ کا پیغام ہے۔ حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ صرف اللہ کو، صرف حق کو چاہنا ہی بندگی کی معراج ہے۔ اور اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں: "ایاک ابکی یا حسینؑ؛ اے حسین! میں صرف تیرے لیے گریہ کرتا ہوں!"

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha