۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سلام فرماندہ

حوزہ/ سلام فرماندہ،سلام فرماندہ کی دلنشین صداوں نے دلوں کو حجت خدا کی جانب کچھ اسطرح راغب کردیا ہے کہ عقلیں سمجھنے سے اور زبانیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت سے لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ ایک عام سادہ ترانہ ہے اور بس۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی

حوزہ نیوز ایجنسیدنیا بے بس ہوچکی تھی،تقریبا ڈھائی سال تک لوگ گھٹن کی زندگی گزار رہے تھے،گھر کا ایک فرد ٹھیک ہوتا تو دوسرا اس مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتا،بہت سے لوگ اس منحوس بیماری میں اپنے عزیزوں سے بچھڑگئے،ہر طرف غم و اندوہ کی فضا چھا چھکی تھی،ہر دن کسی نہ کسی عزیز یا دوست کی موت کی خبر ،آکسیجن سلینڈرز کا نہ ملنا،ہسپتالوں میں افراتفری،سفری محدویتیں،گھروں میں محصور ہونا،عزیزوں سے بچھڑ جانا ،پردیس میں عزیزوں کا محصور ہوجانا،اقتصادی مشکلات ان تمام چیزوں نے زندگی کے معنی کو ہی تبدیل کردیا تھا،
اس ڈھائی سال کے عرصے میں انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے نقصانات کا ازالہ شاید پوری زندگی نہ ہوسکے۔
خلاصہ یہ کہ زندگی نے اپنا رخ تبدیل کردیا تھا لوگ خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے تھے، ہر شخص خود کو موت اور حیات کے درمیان پا رہا تھا، کمزور ایمان والے یاس و ناامیدی کے شکار ہوچکے تھے۔
اس سخت امتحان میں تمام انسانیت ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی کہ جو انہیں اس موت کے سراب سے باہر نکال دے۔

شاید یہ ایک الہی امتحان تھا جس کے ذریعے سے پروردگار اہل ایمان کے ایمان کو مزید راسخ اور اہل باطل کو راہ ایمان کی طرف دعوت دینا چاہتا تھا تا کہ لوگ اپنی حقیقی فطرت کی طرف پلٹ جائیں اور مادیت کی ظلمت سے خود کو نکال باہر کریں۔

اور بلا شک ایسا ہی ہوا اہل ایمان کے لیے یہ امتحان ایمان کو راسخ کرنے کا سبب بنا اور مومنین *ان مع العسر یسرا* کی عملی تجلی کو مشاہدہ اور محسوس کرنے لگے۔
اس سخت امتحان کے دوران اہل ایمان کے لیے پروردگار کی جانب سے ایک عظیم تحفہ بھی عطا ہوا وہ تحفہ یہ تھا کہ صاحبان ایمان منجی بشریت،حجت خدا، امام صاحب العصر (عج) کی ضرورت کو دل و جان سے محسوس کرنے لگے، لوگ حجت خدا پر ایمان کے جذبے کو دعاوں،مناجات،عملی فدا کاری کے ذریعے اظہار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اس مہلک بیماری کے اختتامی ایام میں جب مسجد مقدس جمکران میں حجت خدا سے تجدید عہد کے لیے ایک ترانہ پڑھا گیا تو پوری دنیا میں اہل ایمان نے حجت خدا سے اظہارِ عقیدت اور عشق کو عجیب انداز میں پیش کیا۔
اگر دوسرے الفاظ میں کہوں تو در حقیقت اس ترانے کی جانب رغبت،دلچسپی اور اظہار عقیدت اس الہی امتحان میں کامیابی کا تحفہ ہے جو اس عرصے میں مومنین سے لیا گیا جارہاتھا۔حجت خدا کو معصوم بچوں کی زبانوں اور اشکوں کے ذریعے سلامی پیش کرنا در حقیقت نعمت ولایت کی شکر گزاری کا ایک منفرد انداز ہے جس نے تمام انسانیت کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے۔
سلام فرماندہ،سلام فرماندہ کی دلنشین صداوں نے دلوں کو حجت خدا کی جانب کچھ اسطرح راغب کردیا ہے کہ عقلیں سمجھنے سے اور زبانیں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
بہت سے لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ ایک عام سادہ ترانہ ہے اور بس۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ ایک سادہ ترانہ ہوتا تو لوگ شھر شھر قریہ قریہ اس ترانے کو پڑھنے کرنے کے لیے کیوں جمع ہو رہے ہیں؟
کیا کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ محض ایک ترانہ پڑہنے کے لیے مائیں اپنے بچوں کو خاص اہتمام کے ساتھ سروں پر لبیک یا مھدی کا سربند باندھ کر لاکھوں کا اجتماعات منعقد کریں؟؟؟

کیا آج تک تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ ایک ترانہ بیک وقت ایک ہی دھن میں کئی ممالک میں ایک نظم اور ترتیب سے پڑھا جائے؟

کیا کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ ایک ترانے کو معصوم بچے اس عقیدت کے ساتھ پڑھیں کے ان کی آنکھوں سے اشک ہی نہ تھمیں؟

دلچسپ تو یہ ہے کہ کیا کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ ایک ترانے کی وجہ سے استعماری مشینری حرکت میں آئے اور ان کے معادلات درہم برہم ہو کر رہ جائیں ؟

کیا کبھی ایسا ہوا ہے امریکی اور صہیونی نشریاتی ادارے محض ایک ترانے کو بنیاد بنا کر انتہا پسندی اور بچوں میں جنگی تعلیم کی ترویج جیسے تہمتیں لگا کر پروپگینڈا کریں؟

کیا کبھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ ثقافتی جنگ میں ایک ترانے نے دشمن کے کئی سالوں کی محنت کو خاک میں ملا دیا ہو؟

یہ محض صرف ایک اتفاق نہیں بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ انتظار کی تحریک کی ایک جھلک ہے جسے ہم نے ایک اور مقام پر بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جی ہاں یہ عشق و محبت کا ولولہ اربعین امام حسین (ع) سے شروع ہونے والی تحریک کے ثمرات میں سے ہیں جسے ہم سفر عشق ابتدا اربعین اور انتہاء ظھور سے یاد کرتے ہیں۔
اس ترانے کو پڑہتے ہوئے معصوم بچوں کا اشک بہانا اور عقیدت كا اظهار اربعین کی تحریک سے بہت زیادہ شباہت رکھتی ہے جسے ہم کئی سالوں سے مشاہدہ تو کر رہے ہیں لیکن سمجھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہیں ہیں۔ امام زمانہ(عج) سے تجدید عہد، رہبر کے فرمان پر جانثاری،شہیدوں کی سیرت کی عکاسی،دشمن شناسی،ولایت شناسی جیسے عظیم مفاہیم اربعین کے وہ تحفے ہیں جو کربلا کے ذریعے ہم تک منتقل ہو رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ صرف ایک سادہ ترانہ نہیں بلکہ عملی ایمان کا وہ اظہار ہے جو مومنین کے دلوں میں موجود ہے، یہ صرف ایک ترانہ نہیں بلکے اہل ایمان کو پورے عالم میں حجت خدا سے ملانے کا ایک نغمہ ہے۔یہ ترانہ در حقیقت عالم انسانیت کو بقية الله خير لكم کے عقیدے طرف دعوت کا ایک منفرد اور دلچسپ انداز ہے جس نے عالم انسانیت کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے خلاصہ یہ کہ ظہور حجت خدا کی زمینہ سازی کے لیے ایک منفرد تحریک ہے جو معصوم بچوں کی آواز اور اشکوں کے ذریعے شروع ہوچکا ہے اور پوری دنیا میں دلوں کو اپنی جانب مجذوب کر رہا ہے۔
آخر میں پروردگار سے دعا ہےکہ با الہا ان معصوم اشکوں اور آوازوں کے طفیل اپنے حجت کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شامل ہونے کی توفیق عنایت فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .