تحریر: مولانا سید عمار کاظم جرولی
حوزہ نیوز ایجنسی | خطیب الایمان شیر ہندوستان مولانا سید مظفر حسین رضوی المعروف بہ مولانا طاہر جرولی طاب ثراہ شہر علم و ادب سے 80 کلومیٹر دور بہرائچ ضلع کے قصبہ جرول کے دیندار اور تعلقہ دار گھرانے میں 13 رجب المرجب سن 1348 ہجری پیدا ہوئے ۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام سے ملتا ہے ، آپ امام زادہ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ ہندوستان میں آپ کا تعلق زید پور ضلع بارہ بنکی کے سید گھرانے سے ہے ، آپ کے جد راجہ سید محمد حسن صاحب مرحوم نے زید پور سے جرول ہجرت کی اس کے بعد والد اور آپ جرول ہی کے ہو گئے۔
مولانا طاہر جرولی صاحب مرحوم کی والدہ مدافع ولایت علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ کی پوتی اور سرکار ناصر الملت آیۃ اللہ سید ناصر حسین موسوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی تھیں۔
دیندار والدین کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد لکھنؤ منتقل ہو گئے جہاں سرکار نصیر الملت ؒاور سرکار سعید الملتؒ جیسے عظیم باعمل علماء کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ اگرچہ آپ نے کسی مدرسہ میں رسمی طور سے حصول علم نہیں کیا لیکن گھر ہی پر سرکار نصیر الملت ؒاور سرکار سعید الملتؒ اور دیگر علماء کے سامنے زانوٗئے ادب تہہ کر کے علمی مدارج طے کئے۔
خطیب الایمان نے عصری تعلیم میں لکھنؤ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکالت کی سند حاصل کی۔ قانون کی تعلیم ضرور حاصل کی لیکن کبھی اسے مشغلہ قرار نہ دیا بلکہ مذہب حق کی وکالت کو اپنے زندگی کا نصب العین سمجھا۔
علمی و فقہی آغوش کے پروردہ مولانا طاہر جرولی نے علماء و فقہاء کی زیر نگرانی اپنے سفر خطابت و وکالت مذہب کا آغاز کیا۔ ظاہر ہے اس گھر انے میں پرورش پائی کہ پاسبانی مذہب جس گھرانے کا طرہ امتیاز رہا ہے لہذا بلا کسی خوف اور لالچ کے ہمیشہ منبر سے مذہب حق کی وکالت اور پاسبانی ہی فرمائی ۔ نتیجہ میں نہ جانے کتنے گھرانوں نے آپ کی تقاریر سن کر مذہب حق کو قبول کیا ۔ کلکتہ میں آپ کو کئی فیملیز ایسی ملیں گی جو بتائیں گی کہ ہمارے بزرگوں نے مولانا طاہر جرولی صاحب مرحوم کی مجلسیں سن کر اقرار حق کیا اور ظلمت سے نور کا سفر کیا ہے۔
خطیب الایمان صرف کسی خاص علاقہ یا گروہ کے نزدیک مقبول ذاکر نہیں تھے بلکہ آپ ملک و بیرون تمام اردو زبان مومنین کے نزدیک مقبول ذاکر تھے۔ اسکی وجہ صرف یہ رہی کہ انھوں نے پوری زندگی خطابت کی لیکن کبھی بھی خطابت کو ذریعہ معاش قرار نہیں دیا ۔ جب والدہ مرحومہ کی فرمائش پر ہم بھائیوں کو خطابت کے سلسلہ میں نصیحت کی تو فرمایا۔
1۔ باوضو منبر پر جاؤ۔
2۔ منبر پر بیٹھنے سے پہلے اپنے مولا سے کہو کہ یہاں تک آپ نے پہنچایا ہے اب آپ ہی ہمیں توفیق دیں کہ ہم وہی بولیں جو آپ چاہتے ہیں۔
3۔ کبھی بھی کسی بھی میزبان سے کوئی مطالبہ نہ کرنا بلکہ منبر پر ہاتھ رکھ کر مولا سے کہنا کہ میری یہ ضرورت ہے جسے آپؑ پوری کریں۔
4۔ جتنا ہو سکے ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم اورتاریخ احمدی پڑھنا ۔ انشاء اللہ کبھی بھی مسودہ کی قلت کا احساس نہیں ہو گا۔
آپ نے ہمیں جو نصیحتیں کی تھیں خود اس پر پہلے سے عمل پیرا تھے لہذا نہ کبھی غریب دیکھا نہ امیر، نہ جھوپڑی دیکھی اور نہ محل، جس نے جب بھی دعوت دی اگر وقت رہا تو اس کی دعوت کو قبول کیا اور بغیر کسی تکلفات کے مجلس پڑھنے پہنچ گئے۔ بعض احباب سے سنا کہ کسی نے کہا کہ مالی حالات اچھے نہیں ہیں لہذا اس سال ہمارے یہاں فرش عزا نہیں بچھے گا ، مسکرا کر فرمایا آپ حسب دستور مجلس کا اعلان کریں ہم مجلس کے لئے آئیں گے اور تبرک وغیرہ کے سلسلہ میں اس طرح مدد کرتے کہ سامنے والے کو احساس شرمندگی بھی نہ ہو۔
خطیب الایمان کی ذاکری میں مناظرہ کا رنگ تھا لیکن کبھی بھی ذاتی مسائل کے لئے منبر کا استعمال نہیں کیا ، بعض مسائل میں آپ کا بعض افراد سے شدید اختلاف ہوا ، آپ نے منبر سے اپنے نظریات دلیلوں سے پیش کئے لیکن کبھی مخالف نظریہ والے کا نہ نام لیا اور نہ ہی کبھی انکی توہین یا ذاتی لفظی حملے کئے۔ بلکہ اگر کبھی کسی نادان دوست نے ذاتی حملے کئے تو اس سے اظہار ناراضگی میں بھی تکلف سے کام نہیں لیا ۔
خطیب الایمان اتحاد بین المومنین کے قائل بلکہ اس پر عمل پیرا تھے لہذا کبھی بھی اپنی ذات کو محور نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ محبت اہل بیت علیہم السلام کو ہی معیار اتحاد سمجھا ۔ فیض آباد کی تبلیغی مجالس کے دوران عطش حسینی کے سلسلہ میں سہ پہر میں مناظرہ طے پایا ، فریقین نے اپنے دلائل پیش کرنے کے لئے صندوقوں میں کتابیں منگا لیں ،آپ مناظرہ میں پہنچے دونوں طرف کے مومنین کو مخاطب کر کے سوال کیا کہ آپ میں سے کون عطش حسینی کا منکر ہےَ سب نے ایک آواز ہو کر کہا کوئی نہیں ! یہ سننا تھا کہ آپ نے فرمایا: جب کوئی منکر نہیں تو مناظرہ کس ہو؟ آپ نے اپنی حکمت سے قوم کو مزید اختلافات سے بچا لیا۔ خطیب الایمان کا یہ عمل مشاہدہ کر کے فریقین تصویر حیرت بن گئے۔
نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن جب بھی بات قوم کی آئی تو آپ نے نظریات کو پس پشت ڈال کر وحدت ایمانی کا پرچم بلند کیا۔ جب بھی قوم کی بات آئی آپ صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہ مرحوم کے شانہ بہ شانہ نظر آٗے ، قومی فلاح و بہبود میں دونوں بزرگوں میں کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا کہ اگر مولانا طاہر جرولی صاحب مرحوم نے کوئی بات کہی تو مولانا کلب عابد صاحب مرحوم نے اسکی تائید کی اور اگر مولانا کلب عابد صاحب مرحوم نے کچھ کہا تو مولانا طاہر جرولی صاحب مرحوم نے اسکی تائید کی ۔ نہ کبھی انھوں نے انکے خلاف کوئی بات کی اور نہ ہی کبھی انھوں نے انکے خلاف کوئی بات کہی۔
خطیب الایمان خطابت کو ذمہ داری سمجھتے تھے ذریعہ معاش نہیں لہذا جس نے جو دیا تبرک حسینی سمجھ کر لے لیا اور اگر کوئی نہیں دے پایا تو نہ کبھی مطالبہ کیا اور نہ ہی آئندہ اس کی دعوت کو ٹھکرایا۔
1987 عیسوی میں ایران حکومت کی دعوت پر تہران میں منعقد تقدس حرمین شریفین کانفرنس میں تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے تجویز پیش کی کہ حرمین شریفین کا تعلق تمام اسلامی فرقوں سے ہے لہذا ہر سال کسی ایک فرقے کو حاجیوں کی میزبانی کا موقع دیا جائے، جسے اکثریت آراء سے قبول کیا گیا۔
اسی سفر کے دوران یکم دسمبر سن 1987 عیسوی مطابق 9 ربیع الثانی 1408 ہجری بروز منگل ایران کے پائے تخت تہران یعنی امام زادہ شاہ عبدالعظیم حسنی علیہ السلام کے جوار میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، جنازہ تہران سے مشہد لے جایا گیا اور امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک یعنی روضۃ الجنہ میں سپرد خاک ہوئے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
مومنین کرام سے گذارش ہے کہ ایک مرتبہ سورہ حمد اور تین بار سورہ توحید کی تلاوت فرما کر والد مرحوم خطیب الایمان مولانا سید مظفر حسین طاہر جرولی صاحب اور والدہ مرحومہ کو ایصال فرما دیں۔