حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں آیات قرآنی کی رو سے شہیدوں کی ابدی زندگی کی طرف اشارہ کیا اور پھر شہید کھلاڑیوں کے بارے میں کہا کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور شہادت کا جذبہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ معاشرے کے سبھی طبقوں اور معاشرے کے تمام افراد میں جہاد کا شوق پیدا ہو اور شہید کھلاڑی اور مجاہد کھلاڑی سمیت جن لوگوں میں ذہنی و روحانی صلاحیت ہے، وہ جہاد کے میدانوں میں جائيں۔ کھلاڑیوں کی صنف ایک بااثر صنف ہے، خاص طور پر وہ کھلاڑی جو مشہور ہو جاتا ہے، نمایاں ہو جاتا ہے، وہ کچھ لوگوں پر اثر ڈالتا ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں اسپورٹس میں فنی جیت کو ایک اخلاقی جیت کے ساتھ جوڑے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: جب آپ نے مثلا کسی ٹورنامنٹ میں فتح حاصل کر لی، آپ کو فنی جیت مل گئي لیکن آپ اسی فنی جیت کو ایک اخلاقی جیت میں بدل سکتے ہیں، جیسے اسپورٹس مین اسپرٹ، جیسے یہی کام جو ہماری خواتین کھلاڑی کرتی ہیں یعنی اسلامی حجاب اور اسلامی حدود کی پابندی اور خود اعتمادی کا مظاہرہ۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے، اگر یہ اس فنی جیت سے زیادہ اہم نہیں ہے تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ کبھی انسان میڈل سے بھی محروم رہ جاتا ہے، ہمارا کھلاڑی غاصب صیہونی حکومت کی طرف سے بھیجے گئے حریف سے مقابلہ نہیں کرتا اور میڈل سے محروم ہو جاتا لیکن وہ پھر بھی فاتح ہے۔ اگر کسی نے اس اصول کو پامال کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فنی اور ظاہری فتح حاصل کرنے کے لیے اس اخلاقی فتح کو پامال کر دیا۔ اگر آپ نے اس کے ساتھ میچ کھیلا اور اس سے مقابلہ کیا تو دراصل اس غاصب حکومت کو، بچوں کا قتل کرنے والی اور اس جلاد حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔
انھوں نے کھیلوں کے سلسلے میں عالمی سامراج کے دوہرے رویے کو، جو "مسلمان کھلاڑیوں کی جانب سے صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کی مخالفت" اور "روس کے کھلاڑیوں کے بائیکاٹ کے حربے" کی شکل میں سامنے آيا ہے، کہا: سامراج کے سرغنہ اور ان کے پٹھو اور درحقیقت بڑی عالمی طاقتوں کے زرخرید چیختے ہیں کہ "جناب! کھیل کو سیاسی میدان کا اکھاڑا نہ بنائیے" آپ نے دیکھا کہ خود ان ہی لوگوں نے یوکرین کی جنگ کے بعد اسپورٹس کے ساتھ کیا کیا! انھوں نے سیاسی مسئلے کے لیے بعض ملکوں کے اسپورٹس پر پابندی لگا دی یعنی جہاں ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے یہ بڑی آسانی سے خود اپنی ریڈ لائنز کو پار کر جاتے ہیں اور یہی لوگ، جب ہمارا کھلاڑی صیہونی حریف سے میچ نہیں کھلیتا تو اعتراض کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اپنی تقریر کے ایک حصے میں، نئے اور پیشرفتہ کھیلوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنا کلچر پھیلانے کی مغرب کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیا کھیل جو اس فریق نے تیار کیا ہے، جیسے فٹبال، والیبال اور دوسرے کھیل، اجتماعی کھیل، ہم سیکھیں، ان میں پیشرفت کریں، پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلیں لیکن اس کی ثقافت کو نہ اپنائيں اور اس کھیل کو اس مغربی کلچر کے لیے ایک رابطہ پل نہ بننے دیں بلکہ اپنی ثقافت کو اس پر حاوی کر دیں۔