تحریر: محمد صادق حسن مہدوی
حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن کریم نے اتحاد اور دوستی کو رسول خدا ص کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف معین کیا ہے:
"و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" "خدا کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقہ نا کریں"
"و اذکروا نعمہ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا و کنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منہا"
"خدا کی نعمت کو یاد کریں جب آپس میں دشمن تھے، پس خدا نے آپ کے دلوں میں الفت ڈالی لھذا اس کی نعمت سے بھائی بن گئے اور آگ میں گرنے سے بچ گئے"
تاریخ بشری میں تمام مصلحین اور دین اسلام کے دلسوز افراد نے یہ کوشش کی ہے کہ نبی اکرم ص کے اس ہدف کو پورا کریں اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اپنی جد و جہت انجام دئےٓ
قرآن کریم میں سورہ مومنون میں ارشاد: "فتقطعوا امرہم بینہم زبرا کل حزب بما لدیہم فرحون" "اہل کتاب اور آسمانی ادیان کے ماننے والے، سب کے سب گروہ گروہ ہوگئے، اور ہر گروہ اپنے پاس موجود امور سے خوش ہوگئے"
مرحوم مغنیہ لکہتے ہیں: آسمانی ادیان کے ماننے والے ایک گروہ:
• حضرت موسی ع کے تعالیم کو اخذ کیا
• حضرت عیسی ع کے تعالیم کو اخذ کیا
• حضرت محمد ص کے تعالیم کو اخذ کیا
جب کہ ان تمام ادیان کا منشا خدا ہے اور خدا کے ان تینوں گروہوں کی تعالیم آپس میں ٹکراو نہیں رکھتیٓ
بلکہ اس سے بڑھ کر اگر تعالیم کو درست انداز میں رہنے دیا جاتا تو آج سب کے سب ایک ہوکر ایک ہی پرچم کے نیچے جمع تھےٓ
نہ یہ کہ خود اسلام میں ہم شاید ہزاروں ٹکرے اور فرقہ اور مذہب رونما ہوتےٓ
آسمانی امتیں بجائے اس کہ آج حق و حقیقت اور واحد الہی دین کے ماتحت جمع ہوجائے، بلکل برعکس یہ نظر آتا ہے کہ کافر امتیں اور ان کے leaders پرچم کفر کے ماتحت جمع ہیں اور اس ظلمانی اتحاد کے ذریعہ باقی ماندہ واحد سچی آسمانی امت کو اپنے ہر ممکنہ وسیلے سے، بجہانا چاہ رہے ہیں۔
"یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواہہم و اللہ متم نورہ و لو کرہ الکافرون"
"خدا کے نور بجہانا چاہ رہے ہیں جبکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے گا، گرچہ کافروں کو یہ بات ناگوار گذرے"
البتہ یہ اختلافات کی اصلی وجہ خود مسلمان امت اور ان کے رہنما نہیں بلکہ اس مسئلہ کی اصلی وجہ، کفار اور شیاطین کی منصوبہ بندی ہے جس کی بناپر یہ شیاطین، امت مسلمہ کے درمیان اختلافات ڈالٹے ڈالٹے کام کو اس حد تک پہنچا دیا کہ آج دو بھائی بھی ایک دوسرے کو رہنما ماننے نہیں۔
یہ اس شیطانی منصوبہ بندی کا ایک چھوٹا نمونہ ہے ورنہ آج کے مسلمان معاشرے میں اس سے بات بھت زیادہ بگاڑ دی گئی ہےٓ
لھذا ان اختلافات کی وجہ سے مسلمان رہنماووں کو ذمہ دار نہیں سمجھنا چائیے بلکہ مسمان رہنماووں کی اصلی غلطی یہ ہے کہ اس ہربہ کو درست انداز میں درک نہ کیا اور تفرقہ اور اختلاف کی آگ میں لکڑیوں کے اضافہ کرنے کا کام انجام دیا۔
دشمن کا ہربہ یہ ہے اور دشمن سے یہ امید نہیں رکھنی چائیے کہ وہ ہربہ و منصوبہ بندی ناکرے بلکہ اس کا علاج باہمی تفکر اور اخلاص کے ساتھ ڈہونڈ کر پوری طرح انجام دینا چائیےٓ
رہبر معظم نے فرمایا: ہمیں آج دشمن کے ہربوں کی شناخت اور دشمنی کرنے کے طریقوں کے بارے میں update رہنا پڑے گا۔
رہبر معظّم کے اس قول کے مطابق، دشمن کے ہربوں کے بارے میں update رھ کر ان ہربوں کو باطل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
آج اگر دینی رہنما گذشتہ مسئلہ کو حل کرنے یعنی اتحاد کے لئے صرف محنت کرے اور آگے دشمنی کے بارے میں ناسوچے اور ان کو باطل کرنے کے لئے منصوبہ بندی ناکرے، آج کا مسئلہ حل ہونے کے بعد، دوسرے مسئلہ میں پڑ جائے گے اور اس کو حل کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
لھذا معقول ترین حل یہ ہے کہ آج کے مسئائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ، دشمن کے اگلے ہربوں کو پہچان کر، ان کے حل کے بھی آج ہی عملی قدم اٹھائےٓ
جب دشمن کے گذرے کل اور موجودہ آج کے ہربوں کو باطل کرلیا، اس وقت بات یہاں پہنچے گی کہ دشمن کو حملہ کیا جائےٓ
البتہ مصنف کی نظر میں آج اتحاد کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ اس شخص کی زندگی پر نظر ڈالے جو آج ایران کی قیادت کو سنبہالے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی مخلص دینی یا سیاسی شخصیت شکوہ نہیں کرتی بلکہ ان کی شخصیت کی بزرگی اور بہترین قیادت کا اقرار کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای(حفظہ اللہ)، جنہوں نے 30 سال سے اوپر اس منصب کو سنبہالا ہوا ہے۔
شاید ہم میں سے اکثر افراد ان کی اس منصب پر فائز ہونے کا قصہ نہ سنا ہو۔
جب مرحوم امام خمینی(رضوان اللہ تعالی علیہ) کا انتقال ہوا، مراجعین اور مجتہدین کی committe نے امام راحل کے جانشینی کے لئے meeting کیٓ
اس meeting میں مشورہ کے بعد یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ آیت اللہ خامنہ ای کو یہ منصب سونپا جائےٓ
اس بات کی voting کی گئی۔
اس محفل میں موجود تقریبا تمام مراجعین و مجتہدین نے آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کا vote دیا جبکہ خود آیت اللہ خامنہ ای اپنی کرسی پر بیٹھے رہے جس کی video recording آج تک موجود ہے۔
اس انتخاب کے بعد رہبر معظم کی پہلی خطابت میں انہوں نے ایک جملہ کہا:
"میں دل کی گھرائی سے نہیں چاہتا تھا کہ میں اس منصب پر آوں اور اس وقت میں نے خدا سے یہ توسل کیا کہ یہ منصب میرے گردن پر نا آئے لیکن خدا کی مرضی کچھ اور تھیٓ اب جب میں اس منصب پر آچکا ہوں یہ کہوں گا، جو خدا نے اپنے انبیاء کو فرمایا ہے: "خذہا بقوہ" "اس منصب کی ذمہ داریوں کو پوری طاقت سے انجام دو" میں نے بھی اس اہم ترین منصب کے لئے خدا سے مدد مانگیٓ اور اسے بہترین انداز میں انجام دینے کا فیصلہ کیآ
رہبر معظم کی ایک گفتگو میں فرماتے ہیں کہ جب ایران کا president تھا اس وقت میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر اس ذمہ داری کے میعاد کے خاتمہ پر امام خمینی(رہ) اگر مجھے حکم دے کہ فلاں دور دراز اور لائٹ بجلی گیس ٹیلیفون روڈ اور دوسری زندگی کی سہولیات سے دور کسی گاوں جاکر ایک ناچیز ذمہ داری نبھاوں، میں اس بات پر راضی ہوں اور امام کے حکم کی تعمیل سے بھت خوشی سے وہاں جاوں گا۔
آج ایسی شخصیت کو خدا کی مصلحت سے عالم تشیع کے بلندترین ظاہری عہدہ سونپی گئی ہےٓ
رہبر معظم کا خلوص اور ان کا اپنے قائد کے حکم کی تعمیل کا جذبہ واضح ہے اور دو پہلو آج کے تمام امت مسلمہ کے افراد، قائدین، کارکن و غیرہ کے ذہن نشین ہونی چائیے۔
خلوص کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ جب انسان اپنی زندگی، چاہے حوزوی تعلیم یا غیر حوزی کوئی کام انجام دے رہا ہو، خدا کی خوشنودی اور رضا کے لئے خود کی تربیت کرےٓ اس تربیتی شخص کے پیچھے جائے جس کی پیروی سے اپنی زندگی میں عملاً اثر محسوس کرے اور اس کا ذہن ان مادی امور سے فراتر ہوکر، اصل اور حقیقت یعنی خدا کی رضا اور عبودیت کا طالب بن جائے۔