منگل 23 دسمبر 2025 - 15:06
امام محمد باقر (ع) اور قرآن وحدیث سے توحید اور عدل کے ثبوت پر دلیل

حوزہ/ہمارے پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام علم و حکمت کے وہ سمندر ہیں جنہیں "باقر العلوم" علوم کو شگافتہ کرنے والا کہا جاتا ہے۔ آپؑ کے دور میں یونانی فلسفہ اور مختلف ملحدانہ افکار اسلامی معاشرے میں سر اٹھا رہے تھے،لوگ ظاہری طور پر اچھی لگنے والی باتیں سن کر متاثر ہو رہے تھے مگر امام وقت نے بھر پور طریقہ سے جن کا مقابلہ عقلی اور قرآنی دلائل سے کیا۔

تحریر: مولانا سید صفدر حسین زیدی، مدیر جامعہ امام جعفر صادق علیہ السلام جونپور

حوزہ نیوز ایجنسی| ہمارے پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام علم و حکمت کے وہ سمندر ہیں جنہیں "باقر العلوم" علوم کو شگافتہ کرنے والا کہا جاتا ہے۔ آپؑ کے دور میں یونانی فلسفہ اور مختلف ملحدانہ افکار اسلامی معاشرے میں سر اٹھا رہے تھے،لوگ ظاہری طور پر اچھی لگنے والی باتیں سن کر متاثر ہو رہے تھے مگر امام وقت نے بھر پور طریقہ سے جن کا مقابلہ عقلی اور قرآنی دلائل سے کیا۔

وجودِ خدا، توحید اور عدل پر آپؑ کے کچھ ارشادات اور مناظرے قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں:

وجودِ خدا اور توحید پر قرآنی و عقلی دلیل
امام محمد باقر علیہ السلام نے خدا کی وحدانیت کو ثابت کرنے کے لیے اکثر قرآن کی ان آیات کا سہارا لیا جو انسانی عقل کو کائنات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

دلیلِ دنیا کی منظم پیدائش

ایک مناظرے میں آپؑ نے فرمایا"کیا یہ ممکن ہے کہ ایک منظم عمارت بغیر کسی بنانے والے کے بن سکتی ہے؟ یہ کائنات جس کی ہر چیز ایک خاص حساب اور نظم سے جڑی ہے، کیسے ممکن ہے کہ خود بخود وجود میں آ گئی ہو؟
آپؑ نے اس کے لیے سورہ طور (آیت ۳۵) پیش کی جسکاترجمہ،کیا وہ بغیر کسی (خالق) کے پیدا ہوئے ہیں یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں؟
یعنی کوئی بھی منظم مرتب چیز بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود نہیں پیدا ہو سکتی
ایک ملحد سے خدا کے دکھائی نا دینے پر مناظرہ
ملحد پوچھتا ہیکہ،آپ جس کی عبادت کرتے ہیں آپ نے کیا اسے دیکھا ہے؟"

امامؑ نے جواب دیا"آنکھیں اسے ظاہری شکل میں نہیں دیکھ سکتیں، لیکن ہم دل اورحقیقتِ ایمان سے اسے دیکھتے ہیں۔
وہ حواس سے پہچانا نہیں جاتا اور نہ ہی لوگوں سے اسکا قیاس کیا جا سکتا ہے، وہ اپنی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے۔" اصولِ کافی، جلد۱

توحیدِ باری تعالیٰ ذات اور صفات کے بارے میں
امامؑ نے توحید کو سمجھانے کے لیے سورہ اخلاص کی تشریح اس طرح فرمائی۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے سورہ اخلاص (جو کہ توحید کا نچوڑ ہے) کی ایسی عمیق گہری اور فلسفیانہ تشریح فرمائی ہے جو اللہ کی ذات و صفات کے ہر پہلو کو روشن کر دیتی ہے۔آپؑ کی تشریح کابنیادی نکتہ"الصمد"اوراللہ کی وحدانیت ہے۔

روایات کے مطابق (جو کتاب التوحید، شیخ صدوق میں درج ہیں)، امامؑ نے سورۂ اخلاص کے ایک
لفظ "الصمد" کی پانچ رخ سے تشریح اس طرح کی:

امام نے فرمایا کہ "الصمد" کے کئی معانی ہیں جو اللہ کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں:

صمد وہ ہے جس کا کوئی جوڑ نہ ہو۔یعنی وہ ایسی ذات ہے جو مادہ اور اجزاء سے پاک ہے۔ وہ "توسّط" سے منزہ ہے (نہ وہ کسی چیز کے اندر ہے، نہ کوئی چیز اس کے اندر)۔

صمد وہ ہے جو تغیر سے پاک ہو

امامؑ نے فرمایا: صمد وہ ہے جسے فنا نہیں ہے، جو نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے اور نہ سوتا ہے۔ وہ زمان و مکان کی تبدیلیوں سے بالاتر ہے۔

صمد وہ ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کی بادشاہت کبھی ختم نہیں ہوگی۔

صمد وہ ہے جو ہر چیز کا مرجع ہوکائنات کی ہر چھوٹی سےبڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اس کی محتاج ہے، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں۔
عقلی معنی امامؑ نے فرمایا "صمد وہ سید و سردار ہے جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں میں رجوع کرتے ہیں۔

"لم یلد ولم یولد" کی بے مثال وضاحت

امامؑ نے اس آیت کی تشریح میں مادی اور معنوی دونوں پہلوؤں کو واضح کیا ہے:

لم یلد (نہ اس نے کسی کو جنا)اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس کی کوئی اولاد نہیں، بلکہ امامؑ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات سے کوئی مادی یا لطیف چیز "خارج" نہیں ہوتی۔ نہ پسینہ، نہ نیند، نہ سوچ، نہ غم اور نہ ہی غصہ۔ وہ ان تمام انسانی کیفیات سے پاک ہے جو کسی چیز کے "پیدا ہونے" یا "نکلنے" کا سبب بنتی ہیں۔

ولم یولد (نہ وہ کسی سے پیدا ہوا)یعنی وہ کسی چیز سے "مشتق" نہیں ہوا۔ وہ نہ کسی مادی شے سے نکلا، نہ کسی مکان سے، نہ عدم سے اور نہ ہی کسی اصل سے۔ وہ قدیمِ اور ازلی ہے۔

"ولم یکن لہ کفواً احد" (برابری کی نفی)

امامؑ نے فرمایا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی چیز، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی، اللہ کی "شبیہ" نہیں ہو سکتی۔

اللہ کا کوئی ہمسر نہیں

اس کی صفات (علم، قدرت، حیّ) اس کی ذات کا عین ہیں، وہ انسانوں کی طرح صفات کا محتاج نہیں کہ علم کہیں سے حاصل کرے یا قدرت کہیں سے پائے۔

ایک لطیف نکتہ حروفِ صمد

امامؑ سے منسوب ایک روایت میں آپؑ نے لفظ "صمد" کے حروف کی بھی علمی تشریح کچھ اس طرح فرمائی ہے:

ص اس کی "صمدیت" پر دلیل ہے (یعنی وہ ہر چیز کا ارادہ کرنے والا ہے)۔

م اس کی"ملکیت"(بادشاہت) کی علامت ہے جو سچی اور دائمی ہے۔

د اس کے "دوام" (ہمیشگی) کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اول بھی ہے اور آخر بھی۔

خلاصہِ کلام

امام محمد باقر علیہ السلام نے واضح کیا کہ سورہ اخلاص اللہ کی "نسبت" (تعارف) ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کو ان صفات کے ساتھ پہچان لے جو اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں، وہ شرک اور تشبیہ (اللہ کو مخلوق جیسا سمجھنا) سے نجات پا گیا۔> شیخ صدوق، کتاب التوحید، باب تفسیر سورہ اخلاص، علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد ۳ (کتاب التوحید)
آپؑ کے نزدیک اللہ کی ذات وہ ہے جس میں کوئی تعدد نہیں ہے۔

حدیثِ معتبر

امامؑ سے اللہ کے نام "اللہ" کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: "اللہ کے معنی ہیں وہ معبود جس کی معرفت میں مخلوق حیران رہ جائے اور
۳. عدلِ الٰہی (جبر و قدر کے درمیان راستہ)
امام محمد باقر علیہ السلام کے دور میں "جبر" (کہ انسان مجبور ہے) اور "تفویض" (کہ خدا کا کوئی دخل نہیں) کے نظریات عام تھے۔ آپؑ نے عدلِ الٰہی کو ثابت کرتے ہوئے یہ قاعدہ بیان فرمایا
"لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِیضَ وَ لَکِنْ اَمْرٌ بَیْنَ اَمْرَیْنِ"
نہ جبر ہے اور نہ ہی مکمل تفویض (آزادی)، بلکہ حق ان دونوں کے درمیان کا راستہ ہے۔

عدل پر قرآنی دلیل

آپؑ نے فرمایا کہ اگر انسان مجبور ہوتا تو جزا اور سزا (جنت و جہنم) عدل کے خلاف ہوتی۔ اللہ عادل ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

آپؑ نے سورہ آلِ عمران (آیت ۱۸) کو پیش کیا:

ترجمہ: وہ عدل و انصاف کے ساتھ (نظامِ کائنات) کو قائم رکھنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔)

آپؑ نے واضح کیا کہ اللہ نے انسان کو طاقت اور اختیار دیا ہے (تاکہ امتحان لے سکے) لیکن اس کی قدرت اللہ ہی کی دی ہوئی ہے۔

۴. ایک تاریخی مناظرہ (ابو حنیفہ کے ساتھ)
روایات میں ملتا ہے کہ امامؑ نے قیاس کے رد اور توحید و عدل کے فہم پر کئی علمی گفتگو کیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ دینِ خدا کو اپنی ناقص عقل کے قیاس سے نہیں بلکہ وحی اور راسخون فی العلم (اہلِ بیتؑ) کے ذریعے سمجھنا چاہیے۔
اصولِ کافی (کتاب التوحید) امام محمد باقرؑ کے کلام کا مستند ترین ذریعہ ہے۔التوحید (شیخ صدوق)

توحید اور عدل پر امامؑ کے تفصیلی مناظرے

احتجاجِ طبرسی ملحدین اور مخالفین کے ساتھ امامؑ کے استدلالات

خلاصہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ثابت کیا کہ خدا کی معرفت کے لیے "عقل" پہلا زینہ ہے، "قرآن" ضابطہ ہے اور "اہلِ بیتؑ" اس کی صحیح تشریح کرنے والے ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام ابو حنیفہ (جو اس وقت ایک ابھرتے ہوئے فقیہ شمار کئے جاتے تھے) کے درمیان مدینہ منورہ میں ہونے والا مناظرہ تاریخِ اسلام کا ایک اہم علمی واقعہ ہے۔ اس مناظرے کا بنیادی موضوع "دین میں قیاس کی حیثیت" اور ٫اہل بیتؑ کے علم کی فوقیت، تھا۔
یہ مناظرہ معتبر کتب جیسے "احتجاجِ طبرسی" اور "بحار الانوار" میں تفصیل سے مذکور ہے۔

مناظرے کا پس منظر

روایات کے مطابق جب ابو حنیفہ مدینہ آئے تو امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امامؑ نے ان سے فرمایا"کیا تم وہی ہو جو میرے نانا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور ان کی احادیث کو 'قیاس' کے ذریعے بدل رہے ہو؟
ابو حنیفہ نے احتراماً عرض کیاخدا کی پناہ کہ میں ایسا کروں۔ امامؑ نے فرمایا "نہیں، تم ایسا کر رہے ہو۔

مناظرے کے اہم نکات (عقلی و نقلی دلائل)

ابو حنیفہ نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا کہ میں آپ سے کچھ سوالات کے ذریعے اپنی بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔ امامؑ نے اجازت دی، تو درج ذیل گفتگو ہوئی:

۱. قتل اور زنا کا موازنہ
امامؑ نے پوچھا"تمہارے نزدیک 'قتل' زیادہ بڑا گناہ ہے یا 'زنا'؟"
ابو حنیفہ "قتل کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔"
امامؑ نے فرمایا "اگر دین قیاس پر ہوتا، تو قتل کے لیے 4گواہ ہونے چاہیے تھے اور زنا کے لیے 2 (کیونکہ قتل بڑا جرم ہے)۔ لیکن اللہ کا حکم اس کے برعکس ہے (قتل کے لیے دو اور زنا کے لیے چار گواہ)۔ پس یہاں قیاس باطل ہو گیا۔"
۲. نماز اور روزہ کا موازنہ
امامؑ نے پوچھا"نماز زیادہ افضل ہے یا روزہ؟
ابو حنیفہ "یقیناً نماز افضل ہے۔
امامؑ نے فرمایا: "اگر تمہارا قیاس درست ہوتا، تو حائضہ عورت پر نماز کی قضا واجب ہوتی نہ کہ روزے کی (کیونکہ نماز زیادہ اہم ہے)۔ مگر اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ روزے کی قضا کرے اور نماز کی نہیں۔ یہاں بھی تمہارا قیاس دین کے خلاف پڑ گیا۔
۳. پیشاب اور منی کا موازنہ (طہارت کا مسئلہ)
امامؑ نے پوچھا"پیشاب زیادہ نجس ہے یا منی؟
ابو حنیفہ "پیشاب زیادہ نجس ہے۔"

امامؑ نے فرمایا: "تمہارے قیاس کے مطابق پیشاب کے بعد غسل واجب ہونا چاہیے تھا اور منی کے بعد صرف وضو (کیونکہ پیشاب زیادہ نجس ہے)۔ مگر اللہ کا حکم یہ ہے کہ پیشاب پر وضو ہے اور منی پر غسل۔"

مناظرے کا نتیجہ اور امامؑ کی نصیحت

ان دلائل کو سننے کے بعد ابو حنیفہ خاموش ہو گئے اور ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ تب امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک اصولی بات ارشاد فرمائی جو قیامت تک کے لیے مشعلِ راہ ہے:

"اے ابو حنیفہ! اللہ کے دین میں قیاس سے کام نہ لیا کرو، کیونکہ سب سے پہلے جس نے قیاس کیا تھا وہ 'ابلیس' تھا۔ اس نے کہا تھا کہ میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔"
امامؑ نے واضح کیا کہ دینِ الٰہی عقلِ انسانی کے صرف قیاسی گھوڑے دوڑانے سے سمجھ میں نہیں آتا، بلکہ اس کے لیے وحی اور علمِ لدنی (جو اہل بیتؑ کے پاس ہے) کی ضرورت ہے۔
علامہ طبرسی، الاحتجاج، جلد ۲، صفحہ ۱۱۸۔
علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد ۱۰، صفحہ ۲۲۰۔
شیخ عباس قمی، منتہیٰ الآمال (حالاتِ امام محمد باقرؑ)۔
اس مناظرے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام محمد باقرؑ نے کسطرح عقلی مغالطوں کو قرآن اور سنتِ نبوی کے حقیقی فہم سے رد کیا۔

صل الله علیک یا محمد ابن علی بن الحسین علیہ السلام

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha