بدھ 17 دسمبر 2025 - 21:09
ڈیجیٹل دنیا؛ بچوں کی تربیت یا تباہی؟ اسکرین سے زیادہ خطرناک والدین کی غفلت ہے: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تیزی سے پھیلتے اثرات نے بچوں کی زندگی، سوچ اور تربیت کو ایک نئے چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ ممتاز محقق حجت الاسلام والمسلمین سید نجیب حیدر زیدی نے حوزہ نیوز ایجنسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ڈیجیٹل گیمز بذاتِ خود خطرہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ ان کا غیر شعوری استعمال اور والدین کی غفلت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر اسکرین کو شعور، منصوبہ بندی اور محبت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہی ڈیجیٹل دنیا بچوں کی فکری و اخلاقی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے، بصورت دیگر یہ ان کی بربادی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی زندگی کو سہولت، رفتار اور وسعت عطا کی ہے، وہیں نئی نسل بالخصوص بچوں کی فکری، اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ اسکرین، جو کبھی محض معلومات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی، آج بچوں کی دنیا، دوستیوں، کھیل اور حتیٰ کہ خوابوں تک پر اثر انداز ہو چکی ہے۔

اسی تناظر میں ممتاز محقق اور دینی و فکری امور کے صاحبِ نظر عالمِ دین حجت الاسلام والمسلمین سید نجیب الحسن زیدی نے حوزہ نیوز ایجنسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں “ڈیجیٹل دنیا: بچوں کی آبادی یا بربادی؟” کے حساس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔

انہوں نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا بلکہ والدین، اساتذہ اور معاشرے کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔

ذیل میں اس خصوصی انٹرویو کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں:

ڈیجیٹل دنیا: بچوں کی آبادی یا بربادی؟

حوزہ:

جدید دور میں ڈیجیٹل دنیا کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی اگر بامقصد اور درست انداز میں استعمال نہ ہو تو تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ آج چھوٹے چھوٹے بچے اپنے وجود سے بڑی اسکرینوں میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مولانا سید نجیب الحسن زیدی:

یہ محض ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں، بلکہ مقصدیت اور تعمیری جہت ہر کام میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

مثال کے طور پر، گھر کے چولہے کو جلانے والی ایک ماچس کی تیلی اگر غفلت سے استعمال ہو تو پورا گھر جلا سکتی ہے۔ کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ گیس سلنڈر کھلا رہ گیا اور جیسے ہی لائٹر یا ماچس استعمال کی گئی، زور دار دھماکہ ہو گیا۔

جس چاقو سے ہم سبزیاں، پھل اور گوشت کاٹتے ہیں، اسی سے کسی کا قتل بھی کیا جا سکتا ہے، غفلت میں انسان سبزی کے بجائے اپنا ہاتھ کاٹ لیتا ہے۔

جس سوئی سے کپڑے سلے جاتے ہیں، وہ کسی کی آنکھ میں چبھو کر اندھا بھی کر سکتی ہے، اور لاپروائی میں انسان کپڑے کی جگہ اپنی انگلی سی لیتا ہے۔

ہر چیز کا تعمیری یا تخریبی استعمال انسان کے ہاتھ میں ہے، ٹیکنالوجی بھی اسی اصول کے تحت آتی ہے۔

اسی لیے میں کہتا ہوں: بچوں کا سب سے بڑا دشمن اسکرین نہیں، بلکہ والدین کی غفلت ہے۔”

ڈیجیٹل دنیا؛ بچوں کی تربیت یا تباہی؟ اسکرین سے زیادہ خطرناک والدین کی غفلت ہے: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ:

آپ کی بات مزید وضاحت طلب ہے، کیا آپ اسے مفصل بیان کر سکتے ہیں؟

مولانا سید نجیب الحسن زیدی:

بالکل۔ میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ ڈیجیٹل گیمز بذاتِ خود دشمن نہیں۔ اصل خطرہ ان کے غیر شعوری اور بے قابو استعمال میں ہے۔

آج کا بچہ ایک ایسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں موبائل اس کا دوست بھی ہے، کھلونا بھی، استاد بھی اور کبھی کبھی دشمن بھی۔ اگر والدین باشعور نہ ہوں تو یہی اسکرین بچے کے ذہن، کردار اور خوابوں کو بدل دیتی ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جسے میں “نیا میدانِ جنگ” کہتا ہوں۔

یہ جنگ بندوقوں سے نہیں، بلکہ توجہ، وقت اور تربیت کے میدان میں لڑی جا رہی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا؛ بچوں کی تربیت یا تباہی؟ اسکرین سے زیادہ خطرناک والدین کی غفلت ہے: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ:

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل گیمز دماغی نشوونما میں مدد دیتے ہیں۔ کیا ہمیں انہیں مثبت نظر سے دیکھنا چاہیے یا محتاط رہنا چاہیے؟

مولانا سید نجیب الحسن زیدی:

یہ بات درست ہے کہ ہر گیم برا نہیں ہوتا۔ دراصل گیمز کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1. سازگار اور تربیتی گیمز

2. تحریکی اور اعتیادی گیمز

مشہور مفکر مارشل میکلوہن کے مطابق، ہر نئی ٹیکنالوجی انسان کی صلاحیت کو بڑھاتی بھی ہے اور کمزور بھی کر سکتی ہے۔اچھا گیم دماغی فعالیت، منصوبہ بندی اور تنقیدی سوچ کو فروغ دیتا ہے، جبکہ برا گیم ذہنی غلامی پیدا کرتا ہے۔

مثال کے طور پر Minecraft، SimCity، Civilization جیسے کھیل وسائل کے نظم، مسئلہ حل کرنے اور اجتماعی سوچ کی تربیت دیتے ہیں۔

اس کے برعکس PUBG یا Free Fire جیسے گیمز فوری انعام، تشدد اور خودمرکزی رویے کو فروغ دیتے ہیں۔

یہیں والدین کی رہنمائی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

ڈیجیٹل دنیا؛ بچوں کی تربیت یا تباہی؟ اسکرین سے زیادہ خطرناک والدین کی غفلت ہے: حجت الاسلام سید نجیب الحسن زیدی

سوال:

والدین “اچھے” اور “برے” گیمز میں فرق کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

مولانا سید نجیب الحسن زیدی:

اچھے گیمز وہ ہیں جو بچے میں ترتیب، تجزیہ، صبر اور تعاون پیدا کریں، اور فوری انعام کے بجائے دیرپا اطمینان دیں۔

جیسے:

Thinkrolls، DragonBox، Khan Academy Kids، Sabeel Kids

اس کے برعکس برے گیمز دماغ کے انعامی نظام (Reward System) سے کھیلتے ہیں، جہاں بچہ ہر لمحہ اگلے ریوارڈ کا منتظر رہتا ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات شوشانا زبوف نے اس رجحان کو “Surveillance Capitalism” کا نام دیا ہے، یعنی انسانی نفسیات کو منافع کا ذریعہ بنا لینا۔

بدقسمتی سے آج ہمارے بچے اسی جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔

سوال:

آخر والدین کے لیے اصل پیغام کیا ہے؟

مولانا سید نجیب الحسن زیدی:

پیغام بہت سادہ ہے:

والدین تسلیم کریں کہ دنیا ڈیجیٹل ہو چکی ہے، مگر رہنمائی کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا۔

اصل میدان گیمز نہیں، بلکہ گفتگو اور تعلق کا ہے۔

روزانہ چند منٹ کی با معنی گفتگو اسکرین کے ہزار لمحوں پر بھاری ہوتی ہے۔

آخرکار، ڈیجیٹل نمرودوں اور فرعونوں سے بچاؤ کا راستہ

تعلیم، آگاہی اور محبت کے امتزاج میں ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha