۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا ذوالفقار حسین

حوزہ/ ہرطرح کے مر جانے کو شہادت نہیں کہتے ، بلکہ خدا کی راہ میں اخلاص ،شجاعت، محنت کے ساتھ ہو اور اسمیں موت آجائے، شہادت کا درجہ رکھتا ہے، شہید وہ ہے جو جہاد کرتا ہے یعنی مشقت کرتا ہے اور شجاعت کو بروئے کار لاتا ہے اور خدا کے لئے قدم کو آ گے بڑھاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین حجۃ الاسلام و حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین نزیل حوزہ علمیہ قم المقدسہ نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار سے"شہید کسے کہتے ہیں؟" اسکے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی زندگی کے پیچ وخم ،نشیب و فراز کے ہر مراحل کو طے کرنے کے لئے تکامل کی بلند  وادیوں  سے گزرنا پڑتا ہے تا کہ  خدا کی رضا کو حاصل کیا جا سکے لقاء اللہ تک پہنچنے میں بہت سی راہیں پائی جاتی ہے ان میں سب سے بہتر راہ کا نام ،اپنی جان  کو اللہ کی راہ میں قربان کردینا ہے انسان کی نظر میں جان سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے جب وہ اپنی شہ رگ کو خدا کے سپرد کردیتا ہے تو  خدا بھی بہت اچھا خریدار ہے وہ اس کے عوض میں اس کو  بلا فاصلہ جنت کی پر ثمر نعمتیں عطا کرتا ہے یہ اس شہادت کی بنا پرہے  جو اس نے اللہ کی راہ میں دی ہے ۔

انہوں نے حقیقت شہادت کیا ہے اسکے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ایک قول کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ "شہادت ایک ایسی خوشبو اور معطر پھول ہے کہ جو  صرف انسانوں کے درمیان میں سے خداوند کے منتخب بندگان کو  نصیب ہوتی ہے اور صرف انہیں کے مشا م ان کو سونگھ سکتے ہیں ۔ ہم جس شہادت کو مقدس شریعت میں جانتے ہیں اورہمیں  روایات ،قرآنی آیات جس کے بارے  میں بتاتی ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک ایسے مقدس مقصد کی راہ کو اپنائے کہ جو واجب یا پسندیدہ  ہے اور اس راہ میں جان کی بازی لگا دے یہ اسلامی صحیح شہادت  ہے ۔

انہوں نے قرآن کریم کی مختلف تعابیر شہادت کے سلسلے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں شہادت کے سلسلے میں  ایک مخصوص تعبیر آئی  ہے کہ خدا کی راہ میں جان دے دینا ایک  طرح کا مرنا نہیں ہے (وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ في‏ سَبيلِ‏ اللَّهِ‏ أَمْواتٌ بَلْ أَحْياءٌ وَ لكِنْ لا تَشْعُرُون‏) ( بقرہ / 154 ) 
اس آیت کے سلسلے میں صاحب تفسیر نمونہ لکھتے ہیں :اگر چہ یہ آیت شہداء بدر کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن جس مومن کی بھی موت راہ خدا میں ہو جائے وہ بھی شہادت پر فائز ہوتا ہے اور جو بھی خدا کی راہ میں جس زمانے میں بھی شہید ہوجائے جس طرح ہمارے ائمہ : وغیرہ ۔۔۔ ( تفسیر نمونہ ، ج2 ، 251 )  یا آل عمران کی مشہور آیت جو شہدا ء کو زندہ بتا رہی ہے اور وہ اللہ کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔( وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلُوا في‏ سَبيلِ‏ اللَّهِ‏ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون‏) (آل عمران/ 169) ( أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرينَ ) (سورۂ آل عمران ، 144)  
خدا کی راہ میں جان دے دینا معمولی موت کے  برابر نہیں ہے الہی معیار اور دینی ،قرآنی نطقہ نظر سے شہادت ایک الگ گرانبہا مفہوم و معنی رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ الہی عطیہ  جس کے شامل حال ہوگیا اور خدا کی راہ میں شہید ہو گیا ، یہ خو د ایک طرح کی خداکی شکر گذاری ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ شہادت کا معنی یہ ہے کہ ایک انسان اپنی سب سے بہترین اور سب سے محبوب  دنیوی سرمایہ کو ایک ایسے عظیم عمل پر نثار کردے جس کا وہ معتقد ہے کہ جس کا  زندہ رہنا اور   ثمر امید بشریت کے لئے فائدہ مند ہے ۔

مولانا ذوالفقار حسین نے شہادت کا ہدف کیا ہونا چاہئے اس تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شہید، یعنی ایک انسان جوعظیم معنوی راہ میں جان دیدے اور اپنی جان کو - کہ جو ہر انسان کا اصلی سرمایہ ہے -الہی ہدف و مقصد کے لئے نچھاور کر دے اور خداوند متعال بھی اس ایثاراور عظیم قربانی کے نتیجہ میں ، اس کے وجود ،یاد اور فکر کو نسلوں تک  باقی رکھتا ہے اور اس کا ہدف  زندہ باقی رہتا ہے یہ ،خدا کی راہ میں جان دینے کی خاصیت ہے وہ لوگ جو خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں زندہ ہیں ان کے جسم زندہ نہیں ہیں ؛ لیکن ان کے حقیقی وجود زندہ ہیں ۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر طرح کے مر جانے کو شہادت نہیں کہتے ،بلکہ خدا کی راہ میں اخلاص ،شجاعت، محنت کے ساتھ ہو اور اسمیں موت آجائے، شہادت کا درجہ رکھتا ہے، شہید وہ ہے جو جہاد کرتا ہے یعنی مشقت کرتا ہے اور شجاعت کو بروئے کار لاتا ہے اور خدا کے لئے قدم کو آ گے بڑھاتا ہے۔ کیونکہ اگر شجاعت نہ دکھائے تو ،شہادت کی منزل کو طے نہیں کرپائے گا ۔

مزید شہادت کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال، نے شہید کے حق میں، سب سے بڑا لطف کیا ہے ملاحظہ فرمائیے ! کوئی بھی شخص دنیا میں باقی رہنے والا نہیں ہے ؛تمام کے تمام موت کے گھاٹ لگنے والے ہیں ۔ مرنا تمام لوگوں کے لئے ہے، خداوند متعال نے ، اس موت کو جو تمام لوگوں کے لئے لکھ دی گئی ہے اور انسان ، مجبور ہے کہ اس دروازہ سے گذرے - لیکن شہید کے لئے اس طرح قرار دیا ہے کہ اسی موت کا مقام بلند و بالا ہو گیا ہے !درحالیکہ معمولی موت کا یہ مقام نہیں ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور لطف  ہو سکتا ہے !؟ شہید کی فضیلت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی !؟اس لئے شہید عالم ملکوت اور برزخ میں پروردگار کا شکرگزار ہے ؛ شکرگزار اس لئے ہے کہ اس طرح کا لطف اس کے حق میں کیا گیا ہے شہادت کا لمحہ ، ہر شہید کے میٹھے لمحات میں سے ہے آپ دیکھئے کس قدر بلند و بالا مقام ہے سب سے بہترین مرنا ، شہادت ہے ۔جو انسان خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے سب سے زیادہ ثواب اس کے لئے ہےکہ جو  شہادت کے خوش ذائقہ شربت کو نوش جان کرے۔

آخر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم اور روایات کی نظر میں شہادت کا معنی مقدس مقصد کے تحت ہے جو اللہ کی راہ میں جان کو قربان کردینا ہے یہ ایک الہی عطیہ ہے جو بہت گرانبہا ہے جس کو عطا ہو جاتا ہے وہ پرواز کرنے لگتا ہے اور یہ پرواز الہی ہوتی ہے جو اسے مقام رضا تک پہنچا دیتی ہے در اصل شہادت انسان کو فنا نہیں کرتی بلکہ اس کو بقا دیتی ہے شہید کا جسم نابود  ہوجاتا ہے لیکن اس کا تذکرہ باقی رہتا ہے وہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے لیکن موت اس پر طاری نہیں ہوتی وہ موت کا دلدادہ ہوتا ہے اور اس کی موت تمام انسانوں سے بلند و بالا ہوتی ہے  یہ ایک ایسی موت ہے جس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اور اس خوش ذائقہ شربت کو نوش کرنے کا مزا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا شہادت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نگاہ میں بھی ایک طرہء امتیاز رکھتی ہے کہ جو اللہ کی راہ میں دی جاتی ہے اور اس کی ایک انوکھی کیفیت ہے جس کا ذائقہ صرف شہید کو عطا ہوتا ہے اور یہ جام شہادت پینے کا شرف ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا اس کے لئے توفیق اور ولایت کا دامن تھامنے کی ضرورت ہے ۔ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .