تحریر: مولانا ذوالفقار حسین کامٹوی
حوزہ نیوز ایجنسی | آسمان کوثر کی معراج، والشمس والقمر کی خوشنما قندیلیں، چوڑی چکنی زمین، تہ بہ تہ بادل، ابلتے ہوئے چشمے، تاروں کی تابانی، دریاؤں کی روانی، اور چھم چھم برستا پانی، اس رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر بے قرار تھے۔ جہاں کا معاشرتی نظام جہالت کے دلدل میں ڈوبا ہوا تھا، جہالت کا گھنگھور بادل چھایا ہوا تھا۔ امید کی نسیم سحر اپنی آخری سسکیاں لے رہی تھی، مظلوموں کی آوازیں فضاؤں میں تمنائے وجود کی راپ لگا رہی تھیں۔ عقل کا فیصلہ، ضمیر کی آواز، انسانیت کی پکار، اور شرم و حیا کی تائید افق عدل و انصاف کا ایک ملجا و ماوی بنا ہوا تھا۔ تہذیب و تمدن کی تصدیق اور اخلاق و تمدن کی توثیق بالائے طاق رکھی جا چکی تھی۔ زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں جب زمانہ جاہلیت کے اس گھٹاٹوپ ماحول کو بیان کیا جاتا ہے۔
وہاں علم و کمال حاصل کرنے کے بجائے لوگ اپنی کثرت اور بزرگوں کی عزت پر ناز کرتے تھے، اور بسا اوقات اپنے قبیلے کی تعداد ثابت کرنے کے لیے قبرستان جا کر قبریں شمار کرتے تھے اور اس طرح اپنی تعداد میں اضافہ کرتے تھے۔ (مجمع البیان، ج10، ص 534)
حضرت امام علی علیہ السلام زمانہ جاہلیت کی حیوانیت سے بھرے سماج کی منظر کشی ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
"اے گروہ عرب! تم اس وقت بدترین (بت پرستی) کے پیرو تھے اور بدترین سرزمین (جھلستے ہوئے صحراؤں) پر زندگی گزار رہے تھے، ایسی سنگلاخ زمین جس میں زہریلے سانپ تھے، ایسے سانپ جن پر آواز اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔ تم ان زمینوں میں رہتے تھے، گندا پانی پیتے تھے، بدمزہ غذائیں کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، رشتہ داروں سے دور رہتے تھے، بت نصب کر رکھے تھے اور گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔" (خطبہ 26، نہج البلاغہ)
یہ تھا عرب کا ماحول، رسول اکرم نے ایسا انقلاب لایا جس کے بعد یہ اسلامی معاشرہ اخلاق و تمدن کا نمائندہ بن گیا اور پورے عرب میں اس اسلام کا چرچا ہوگیا۔ خورشید نبوت غدیر کے میدان میں قمر امامت کو تاقیام قیامت تک درخشاں کر گیا، اور پھر اپنی ابدی آرام گاہ میں دفن کر دیا گیا۔ پھر یہ انقلابی تحریک امامت کی شکل میں رواں دواں تھی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کو مسلسل وقت کے فرعونوں نے شہید کیا، لیکن یہ شہادت کا کارواں رواں دواں رہا۔ ان کے پیروکار جاں بلب ہو کر اس شہادت کی اپنے خون سے تفسیر کرتے رہے۔ ان کی نگاہوں میں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نورانی بیان تھا کہ "بہترین موت شہادت ہے" (بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج67، ص 8، ح 4)۔
یہ حق و باطل کی جنگ تزویر کے سر چشموں سے برسرپیکار رہیں۔ یہ دنیا برائیوں کا گھر ہے، جہاں ہمیشہ خیر و شر ہمہ وقت نبردآزما ہیں۔
آج بھی اسی آل سے ایک مرد مجاہد، آزاد منش، فخر عرب و عجم، فلاح و بہبود کا دلدادہ، معاشرتی نظام کا سرخیل، منصف مزاجوں کا علمبردار، صدائے انسانیت، شہید سید حسن نصر اللہ؛ محمد کی صداقت اور امانت کا علمبردار، وہ علی کے نقش قدم پر چلنے والا تھا۔ زہرائے مرضیہ کی رضامندی کو اپنا مشعل راہ بنا لیا تھا، جس کے کردار میں حسن کی صلح و صبر کا کوہ گراں تھا۔ وہ شجاعت حسینی میں دشمن کا منہ توڑ جواب دے رہا تھا، وہ عبادت میں سید سجاد کی پیروی کرتے ہوئے شب زندہ دار تھا۔ وہ باقر سے علم لے کر پرچم توحید کو لہرا رہا تھا، صداقت میں صادق کی صداقت کا آئینہ دار تھا، بردباری میں کاظم کا پیروکار تھا، خوشنودی الٰہی کو خریدنے میں رضا کا سچا فداکار تھا، تقوی میں تقی کے نقش قدم پر چل کر اپنے نفس سے برسر پیکار تھا، پاکیزگی میں نقی کی ہدایت پر استوار تھا، ہیبت عسکری کی ایک تلوار تھا اور امام مہدی کا حقیقی سپہ سالار تھا۔
وہ شمشیر آبدار کی طرح فرعون وقت کے آہنی اہرام کو نابود کرنے کے لیے ہمہ تن آمادہ تھا۔ مظلوموں کو گرداب ہلاکت سے نجات دلانے کے لیے قربانیوں اور فداکاریوں کو بروئے کار لاتا، انسانی اقدار کے عمیق اور ناشناختہ مفہوم کو آشکار کرتا، گم شدہ جہاد کی تفسیر کرتا، انسانیت کے کارواں کو منزل مقصود تک پہنچانے میں نبرد آزما ہو کر دشمن کو للکار رہا تھا۔ ضلالت اور انحراف کو خاک میں ملانے کے لیے مظلوموں کی ہمت افزائی کرتا، یہ وہی شخصیت ہے جس نے گم شدہ عدل و انصاف کو آبشار امامت و ولایت سے لوگوں کو آشنا کروایا۔ ستم دیدہ مظلوموں کی صبح درخشاں تھا، جس کا وجود سفاکیت کے سینے میں ایک خنجر کی مانند تھا، جس کی آواز سے ستم لرزہ براندام تھا، جس کا نام نصرت الٰہی کی ایک امید کا آغاز اور ظالم کے خاتمہ کی دردناک کہانی تھا۔
اس کی نگاہیں بربریت کے جسم نجس پر مسلسل وار کر رہی تھیں، اس کے اشارے دشمن دین پر تیر کی بوچھار تھے، اس کے قدموں تلے باطل کچلا جا رہا تھا، اس کے ہاتھوں سے وقت کا شیطان طمانچے کھا رہا تھا، جس کی پیشانی پر ذرہ برابر کوئی بل نہیں تھا۔ اس نے شہادت کے جام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ ایسے ماحول میں انھوں نے ہمیں پیغام دیا اور یہ لمحہ فکر کرنے کا بھی ہے کہ بعض شرپسند عناصر، بے باک قلم کاروں، مفسد مقرروں اور ناعاقبت اندیش عالموں سے دین اسلام کو بچانے کی ضرورت ہے۔
داخلی دشمنوں سے جو نقصان گلستان اسلام کے مہکتے پھولوں کو پہنچا ہے، وہ خارجی دشمنوں سے کم نہیں ہے، اسی لیے پھولوں کو بہت احتیاط سے توڑا کریں، کیونکہ پھولوں کے پاس ہی کانٹے ہوتے ہیں۔ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگ جاتی ہے، یعنی اسلامی ممالک کی منافقانہ سیاست کو آشکار کر دیا گیا ہے۔
ہمیں سے تیلیاں ماچس کی لے کر
ہمارا گھر جلایا جا رہا ہے۔
اسلام کی تضحیک و تذلیل پر اوباش، عیاش، فاسق و فاجر بادشاہ کا قبضہ ہے، جو دین کا نقاب لگا کر آۓ ہیں۔ اس لیے مظلوموں کے قاتلوں کو باشعور انسان عقل و دانش کے آئینے میں دیکھ لیتا ہے۔ اس لیے قاتل کو سمجھنا لازم ہے۔ قاتل ہمارے آس پاس ہے۔
سر پہ آرے چلا رہی تھی ہوا
ہم یہ سمجھے درخت قاتل ہیں۔
سید شہید نے داخلی اور خارجی دشمنوں سے جہاد کیا، اور آخرکار نفس مطمئنہ ہو کر حریت کی سرزمین پر خود تو سوگئے، لیکن آزاد دلوں کو بیدار کر گئے۔
فَعَلَی الْاَطَآئِبِ مِنْ ٲَھْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ صَلَّی ﷲُ عَلَیْھِمَا وَاٰلِہِمَا
"پس حضرت محمدؐ اور حضرت علیؑ، ان دونوں پر خدا کی رحمت ہو ان کے خاندان پر"
فَلْیَبْكِ الْبَاكُوْنَ، وَاِیَّاھُمْ فَلْیَنْدُبِ النَّادِبُوْنَ
"ان پر رونے والوں کو رونا چاہیے، چنانچہ ان پر اور ان جیسوں پر دھاڑیں مار کر رونا چاہیے"
وَلِمِثْلِھِمْ فَلْتَذْرِفِ الدُّمُوْعُ، وَلْیَصْرُخِ الصَّارِخُوْنَ
"پس ان کے لیے آنسو بہائے جائیں، رونے والے چیخ چیخ کر روئیں۔"(دعائے ندبہ)