۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 375991
5 جنوری 2022 - 17:52
ایک بیٹی کی صدا

حوزہ/ ایک زمانے میں ایک بہت ہی زیادہ نیک بادشاہ رہا کرتا تھا تھا جو سچ اور حق کی بات کرتا تھا جو لوگوں سے کہتا تھا کہ دوسروں کو تکلیف مت دو انکا مال غصب نہ کرو انکے ساتھ اچھا سلوک کرو ماں باپ کی بات مانو اور سب سے بڑی بات کہ ایک خدا کو مانو جو ہمیں رزق دیتا ہے جو ہمیں پیدا کرتا ہے جو ہمیں زندگی اور موت دیتا ہے وہی سب کو پالتا ہے۔

تحریر: علی ہانی

حوزہ نیوز ایجنسی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک زمانے میں ایک بہت ہی زیادہ نیک بادشاہ رہا کرتا تھا تھا جو سچ اور حق کی بات کرتا تھا جو لوگوں سے کہتا تھا کہ دوسروں کو تکلیف مت دو انکا مال غصب نہ کرو انکے ساتھ اچھا سلوک کرو ماں باپ کی بات مانو اور سب سے بڑی بات کہ ایک خدا کو مانو جو ہمیں رزق دیتا ہے جو ہمیں پیدا کرتا ہے جو ہمیں زندگی اور موت دیتا ہے وہی سب کو پالتا ہے۔
اسکے دشمن اسے ہر حال میں ناکام بنانے پر تلے ہوئے تھے کیونکہ وہ انسانوں کی آزادی کی بات کرتا تھا وہ غلامی پر قدغن لگاتا تھا۔
مگر اسکے سیاسی دشمن یہ سب کام اپنے اقتدار اور سیاست کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
ایک دن انہوں نے خفیہ میٹنگ بلائی اور کہا کہ اسکا کوئی حل تلاش کیا جائے جو اس شخص کو اس کام سے روکے نہیں تو ہم برباد ہوجائیں گے۔
کسی نے مشورہ دیا کہ اس کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے جب یہ روٹی پانی سے مجبور ہوگا اور اسکے بچے بھوک سے بلکیں گے تو یہ راہ راست یعنی ہماری بات مان لے گا۔
فیصلہ تحریر کرکے ایک کاغذ پر لکھ کر ایک عظیم اور مشترکہ عمارت کی دیوار میں اسے چھپا دیا گیا تاکہ کوئی باخبر نہ ہوسکے۔
انہوں نے چال چلی اور اس بادشاہ کو اپنے پورے خاندان سمیت دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں دھکیل دیا
اور انکا ناطقہ پانی بند کردیا۔
تین سال تک یہ خاندان وہیں رہا انہوں نے بھوک کاٹی انہوں نے گھاس کھا کر گزارہ کرلیا انتہائی تکلیف دہ دن تھے انہوں نے سب برداشت کرلیا مگر انکے سامنے نہیں جھکے۔
آخرکار ایک دن اس بادشاہ نے اپنے چچا کو دشمن کے لیے ایک پیغام دیا تو دشمنوں نے کہا کہ اگر یہ بات سچ ہوئی تو ہم تمہیں اجازت دیں گے کہ تم واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔
وہ پیغام کیا تھا؟؟
انہوں نے پیغام دیا تھا کہ جو انہوں نے خفیہ معاہدہ چھپا رکھاہے اسے چیونٹیوں نے کھا لیا ہے ۔
انہوں نے جاکر معاہدہ دیوار سے باہر نکالا، دیکھا تو حیران رہ گئے کہ اس کی بات واقعی سچی تھی معاہدہ چیونٹیوں نے کھا لیا تھا۔
انہوں نے اجازت دی کہ واپس گھر واپس آجائیں۔
پھر منظر بدلا یہ دشمن مغلوب ہوئے اور اس شہر پر اس بادشاہ کا مکمل قبضہ ہوگیا اور اسکی حکومت دوسرے شہروں تک پھیل گئی۔
لیکن دشمن اپنی چالوں سے باز نہ آئے اور انہوں نے اپنے دل میں دورنگی ڈال لی تھی یعنی جب بادشاہ کے سامنے جاتے تو اسکے وفادار بن جاتے اور جب اپنے دوستوں میں جاتے تو انکا ساتھ دیتے۔
یہ دشمن اس فکر میں تھے کہ یہ بادشاہ ہمیشہ تو زندہ نہیں رہے گا اس لیے حکومت پر قبضے کا منصوبہ بنانے لگے۔
یہ نظام اسی طرح چلتا رہا !
اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جو اکلوتی تھی اور اسکے بھائی فوت بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے۔
یہ بیٹی جب جوان ہوئی تو اس بادشاہ نے اسکا رشتہ اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ طے کردیا جو ہروقت اسکے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔
جو حکومت کے فرائض بھی جانتا تھا سبھی کو معلوم تھا کہ یہی بادشاہ کاداماد ہی اسکی حکومت کا اگلا وارث بنے گا۔
اس بادشاہ نے اپنی حکومت اور خزانے سے کبھی کچھ نہ لیا صرف یہی کہتے تھے کہ
میرے بعد میری بیٹی اکیلی نہ رہ جائے اس سے محبت کرنا میرے خاندان سے محبت کرنا اسکے بچے میرے بچے ہیں ان سے پیار کرنا۔
اس بادشاہ کا ایک باغ تھا جس میں کھجور کے درخت تھے۔باغ کی آمدنی اس وقت ہزاروں درہم تھی ۔
وہ باغ اس نے اپنی بیٹی کو بخش دیا ۔
بیٹی نے کہا کہ میرے پیارے بابا ! میں اس کا کیا کروں گی اسکی آمدن میرے خرچ سے زیادہ ہے؟
بابا! آپ اسے رکھ لیں اور اسکی آمدغریب رعایا پر خرچ کیجئے!
دوسال تک یہ باغ اس بیٹی کی ملکیت میں رہا
یہاں تک کہ اس بادشاہ کا انتقال ہوگیا
وہاں ایک چھپڑتھا جو کجھور کی شاخوں سے سایہ کیلئے بنایا گیا تھاجس کے نیچے اس وقت کے ڈاکو اور چور اپنا مال لوٹ کر جمع ہوتے تھے اور آپس میں اسکا حصہ تقسیم کرتے تھے۔
اب یہاں حکومت پر قبضہ کے منصوبے بنائے جانے لگے
اس چھپڑ کے نیچے کچھ لوگ جمع ہوئے کہ بادشاہ کا انتقال ہوگیا ہے اور اسکا داماد اور اسکے دوسرے رشتہ دار اسکے کفن و دفن میں مصروف ہیں :
لہذا یہ انتہائی اہم موقعہ ہے کہ اس بنی بنائی حکومت پر قبضہ کرلیا جائے۔
انہوں نے اس منصوبے پر عمل کیا جو انہوں نے کبھی رات کی تاریکی میں کیا تھا ۔
حاضرین حکومت کے دعوے پر آپس میں لڑنے لگے کیونکہ مختلف قبیلوں سے تھے تو اس موقعہ کو غنیمت جان کر
ایک اہم منصو بہ ساز نےدوسرے کو حکومت کی پیشکش کردی
جوخود اس سے بھی بوڑھا تھا
اس نے دلیل دی کہ یہ سب سے بوڑھا ہے اور سیاست جانتا ہے حکومت کرنا جانتا ہے اس لیے یہ اگلا نیا بادشاہ ہوگا۔
لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ بادشاہ نے تو اپنے داماد کو اگلا بادشاہ بنایا تھا تویہ کیسے بادشاہ ہوسکتا ہے؟؟
اس نے کہا :
اصل میں بادشاہ کا داماد چونکہ جوان ہے اور بہت سارے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن میں بوڑھے کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس لیے اس بوڑھے کو بادشاہ بنایا ہے۔
لیکن اس کے دل میں یہ تھا جو اس نے اپنا منصوبہ بھی ظاہر کیا تھا کہ یہ بوڑھا شخص کہے گا کہ میں تو بوڑھا ہوں اور حکومت کیسے کروں گا؟لہذا تم سنبھالو!
مگر وہی بوڑھا بادشاہت ملتے ہی اس پر قابض ہوگیا اور دو سال تک قابض رہا۔
یہ منصوبہ ساز بھی خاموش ہوگیا اور صبر کرلیا۔
اس نے بادشاہ بنتے ہی مشیروں سے کہا :
سر جوڑ کر بیٹھو اور ایسی چال چلو کہ سابقہ بادشاہ کے داماد کو کسی طرح بادشاہت نہ مل سکے!
ہر ایک نے اپنی سمجھ کے مطابق رائے دی ۔
جو اہم منصوبہ ساز تھا وہ کسی سوچ میں گم تھا بادشاہ نے اسے سوچ میں گم دیکھ کر کہا :
لگتا ہے تم ان کی رائے سے متفق نہیں ہو؟
اس نے جواب دیا :ہاں میری کچھ دوسری رائے ہے۔
سب نے اس کی جانب دیکھا تو وہ گویا ہوا کہ
میری نظر میں بادشاہ نے جوایک باغ اپنی بیٹی کو دیا تھا اور اس باغ کی آمدنی غریب رعایا کے لیے وقف تھی اگر وہ باغ واپس لے لیا جائے تو بہت اچھا ہوگا کیونکہ داماد کے پاس رعایا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوگا تو وہ اسکا ساتھ بھی نہیں دیں گے۔
سب کے چہروں پر خوشی کے آثار نظر آنے لگے
لیکن چند لمحوں بعد ہی یہ خوشی کافور ہوگئی کہ اس منصوبہ پر عمل کیسے ہوگا؟
کچھ سوچنے کے بعد نئے بادشاہ نے کہا کہ اس کی فکر نہ کریں یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔
نئے بادشاہ نے فورا اس منصوبے عمل کرنے کا حکم دیدیا۔

جاری ہے۔۔۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .