حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے حکمت نمبر ۱۵ میں انسان کی آزمائشوں، خطاؤں اور ان پر ردعمل کے بارے میں ایک نہایت دقیق نکتہ پیش کیا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مَا كُلُّ مَفْتُونٍ يُعَاتَبُ"
ترجمہ: ہر مبتلا اور گرفتاری میں پڑے شخص کو ملامت نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کلام ایک سنہری اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے: ہر وہ شخص جو کسی مصیبت، آزمائش یا فتنہ میں گرفتار ہو، ضروری نہیں کہ اس میں اس کا قصور ہو۔ امام علیہ السلام کے اس قول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:
بعض آزمائشیں انسان کی اپنی کوتاہی، سستی یا غفلت کا نتیجہ ہوتی ہیں، اور ایسے افراد ملامت کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
لیکن بعض اوقات یہ مشکلات الٰہی آزمائش یا گناہوں کا کفارہ بھی ہوتی ہیں، جن کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی تربیتی حکمت کارفرما ہوتی ہے۔ ایسے افراد سزا نہیں بلکہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔
کبھی انسان کسی مشکل میں لاعلمی، مجبوری یا حالات کے دباؤ کے باعث مبتلا ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں بھی الزام تراشی بے جا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ "مفتون" کا مطلب صرف فتنہ زدہ یا آزمائش میں مبتلا ہونا نہیں، بلکہ فریب خوردہ یا گمراہ ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ گمراہی کا سبب بھی ہمیشہ قصور نہیں ہوتا، بعض اوقات لاعلمی یا حالات کی پیچیدگی انسان کو اس راہ پر لے آتی ہے۔ لہٰذا، امام علی علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق، ہمیں ہر مبتلا اور گمراہ فرد پر ملامت کرنے سے پہلے اس کی کیفیت و سبب کو دیکھنا چاہیے۔
تاریخی پس منظر:
اس حکیمانہ جملے کا ایک تاریخی سیاق بھی ہے۔ علامہ ابن ابی الحدید کی روایت کے مطابق، امام علی علیہ السلام نے یہ جملہ اس وقت ارشاد فرمایا جب سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، اسامہ بن زید اور عبداللہ بن عمر نے جنگ جمل میں آپ کے ساتھ جانے سے انکار کیا، باوجود اس کے کہ وہ آپ سے بیعت کر چکے تھے۔ امام علیہ السلام نے ان کے انکار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
"لَیْسَ كُلُّ مَفْتُونٍ يُعاتَبُ"
یعنی: ہر آزمائش میں مبتلا شخص ملامت کے لائق نہیں ہوتا۔
آپ نے ان سے کہا: "تم واپس جاؤ، اللہ مجھے تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دے گا۔"
نتیجہ:
یہ فرمانِ علوی ہمیں عدل، رحم اور بصیرت پر مبنی رویے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ آزمائش میں مبتلا لوگوں کو سرزنش کرنے کے بجائے ان کی کیفیت و نیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ امام علی علیہ السلام کا یہ درس آج کے معاشرے میں بھی مکمل طور پر قابل اطلاق ہے جہاں اکثر لوگ دوسروں کی ناکامیوں اور مشکلات پر فوری فیصلہ صادر کرتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان کی حقیقت کو سمجھے ہوں۔









آپ کا تبصرہ