۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مراسم عزاداری شب دوم محرم در حرم حضرت معصومه(س)

حوزہ/ا ستاد حوزہ علمیہ نے کہا کہ اگر ہم اپنی صفوں کو سید الشہداء اور امیر المومنین (ع) سے الگ کریں گے تو ہم ظاہری طور پر دنیا کی بلاؤں میں مبتلا نہیں ہوں گے،لیکن اگر ہم اہل بیت(ع)کے ساتھ کھڑے رہیں گے تو کسی طرح یہ بلائیں ہمیں اپنی گرفت میں لیں گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد مہدی میر باقری نے حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا میں شام غریباں کی مجلس سے خطاب کے موقع پر،یہ بیان کرتے ہوئے کہ خداوند متعال کافروں اور منافقوں کے ساتھ مومنین سے امتحان لیتا ہے،کہا کہ مومنین دنیا میں کفر و نفاق کے ذریعے امتحان میں گرفتار ہوں گے اور خدا مومنوں سے صبر و استقامت کی توقع رکھتا ہے تاکہ خداوند امور کو انجام تک پہنچائے۔

انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ پیغمبر (ص) نے امیر المؤمنین، فاطمۂ زہرا اور حسنین علیہم السلام کو اپنے گھر میں جمع کیا اور دروازہ بند کر دیا تاکہ کوئی اجنبی داخل نہ ہو،کہا کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:جبرئیل اس گھر میں ہیں اور خدا کی طرف سے پیغام لایا ہے کہ آپ،جبھۂ منافقوں کے سامنے مصیبت میں مبتلا اور سختی سے آزمائے جاؤ گے۔ کیا آپ ان سختیوں کے لئے تیار ہیں؟ امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:جب خدا کی مشیت میں ایسا ہے تو ہم صبر کریں گے  اور جب علی علیہ السلام نے یہ عہد کیا تو رسول اللہ (ص) اتنا روئے کہ یہاں تک کہ گھر سے باہر بھی آپ کی آواز سنائی دی۔

استاد حوزہ نے کہا کہ سورۂ مبارکۂ فرقان کی 20 ویں آیۃ نازل ہونے کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کی آزمائش اور مصیبت ان کے حقوق غصب کرنے،حضرت فاطمہ(س) کے گھر کا دروازہ جلانے اور بی بی پر طمانچے مارے جانے کے واقعات سے شروع ہوئی اور اس کے بعد والی جنگوں اور کربلا تک اہل بیت علیہم کو مصیبت اور امتحانات کا سامنا رہا اور اہل بیت (ع) نے اس وعدے کی پاسداری کی جو حضرات معصومین(ع) نے خدا سے کیا تھا۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خدا جانتا تھا کہ جب امیر المؤمنین (ع) خدا کے ساتھ عہد کریں گے تو وہ اپنے عہد کو نبھائیں گے،کہا کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے:کیا لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے ہمارے اوپر ایمان کے دعوے کو قبول کریں گے اور ان سے امتحان نہیں لیں گے؟یہ امتحان پچھلی امتوں سے لیا گیا ہے اور آپ سے بھی لیا جائے گا، لہٰذا اگر یہ اہل بیت (ع) کی آزمائش نہیں ہوتی تو مومنوں کی صف،جبھۂ کفر و نفاق سے الگ نہیں ہوتی۔

حجۃ الاسلام والمسلمین میر باقری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسی دنیا میں ہی جہنمیوں اور جنتیوں کو الگ کیا جانا چاہیے، مزید کہا کہ معصومین(ع)؛مصیبت اور آزمائش کا محور
ہیں لہٰذا امت کو حضرات معصومین کی اقتداء کرنی چاہئے اور صفوں کو اس طرح سے ترتیب دی گئی ہے کہ جب ہم قیامت اور ظہور تک پہنچ جائیں گے تو اس وقت مومنوں کی صف میں کوئی منافق اور مشرک اور منافقین کی صف میں کوئی مومن نہیں ہوگا۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ سید الشہداء(ع) اپنے وعدے کے مطابق اپنے بہترین عزیزوں کو قربان کرنے اور ناموس الٰہی کی اسیری کو خدا کی راہ میں پیش کرنے قتلگاہ گئے تاکہ مؤمن جہنم میں داخل نہ ہوں اور مومنوں کی صفوں کو امویوں اور دوسروں کی صفوں سے الگ کیا جا سکے،مزید کہا کہ اب ہماری باری ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلیں۔

استاد حوزہ نے کہا کہ اگر ہم اپنی صفوں کو سید الشہداء اور امیر المومنین (ع) سے الگ کریں تو ہم ظاہری طور پر دنیا کی بلاؤں میں مبتلا نہیں ہوں گے،لیکن اگر ہم اہل بیت(ع)کے ساتھ کھڑے رہیں تو کسی طرح یہ بلائیں ہمیں اپنی گرفت میں لیں گی۔

استاد میر باقری نے یہ بیان کرتے  ہوئے کہ شیعہ پوری تاریخ میں مختلف آزمائشوں میں مبتلا رہے ہیں،کہا کہ شیطان جانتا ہے کہ اسے اپنی شیطنت کا مظاہرہ کہاں کرنا ہے اور اگر ہم معصومین (ع) کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نتیجتاً ہمیں سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،لیکن فلاح و کامرانی یہ ہے کہ انسان سید الشہداء(ع) کے ساتھ کھڑا رہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین میر باقری نے کہا کہ انسان کو ہر سال عاشورا کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا ضروری ہے کہ سن 61ہجری میں اگر میں بھی کربلا میں ہوتا تو کیا میں اپنی جان کو ابا عبداللہ الحسین(ع) پر قربان کر دیتا؟یا کچھ لوگوں کی طرح امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیتا۔؟

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمارے پاس روایت ہے کہ دنیا ایک گہرا سمندر ہے جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد غرق ہوتی ہے،مزید کہا کہ اس دنیا میں صرف وہی لوگ نجات پائیں گے جو ائمہ (ع) کے ساتھ ہوں گے اور اگر انسان دنیا اور نفس سے متعلق اپنا محاسبہ نہیں کرتا تو آہستہ آہستہ آئمہ علیہم السلام سے دور ہو جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .