تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی|
وجہ بقائے نسل نبوت ہے فاطمہؑ
سب سے عظیم جو ہے وہ نعمت ہے فاطمہؑ
اے نا شناس سورۂ کوثر کو پڑھ کے دیکھ
اللہ کے رسولؐ کی عزت ہے فاطمہؑ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی یوم ولادت باسعادت صرف محفلوں کا انعقاد کر، مٹھائیاں تقسیم کر، بریانی کھلا کر اور مبارک باد دیکر خوشی نہ منائی جائے بلکہ عالم اسلام کی تمام خواتین حضرات چاہے وہ دنیا کی کسی خطہ کی باشندہ ہوں، پارۂ جگر رسولؐ کی حیات طیبہ اور ان کمال و فضل کا سنجیدہ مطالعہ کی روشنی میں اپنی زندگی، خاندان کے افراد کی زندگی، اپنے والدین، شوہر، فرزند، دختر، کنیز، پڑوسی اور دیگر رشتہ داروں کی دنیاوی و اُخروی زندگی کو متاثر کر ان افراد کی زندگی کو ترتیب، تشکیل، آراستہ، مہزب و سنوار سکتی ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی نادر و نایاب گوہر سے مزین کردار زیور جیسے اللہ سبحانہ کی شب و روز عبادت، زہد، تقویٰ، حق کی حفاظت، ایثار و رضا، صبر و شکر خدا، ہر خاتون اپنے کسب کمال کے لیے ان خصوصیات کا اتباع کرتے ہوئے اپنے آپ کو چراغ ہدایت کے لیے مثبت و مثالی کردار تمام خواتین کے لیے نمونۂ عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش و سعی کریں۔
پوری دنیا میں مختلف مذاہب و ادیان کے نامور علماء کرام، فطین ذاکرین، اعجاز بیان مقررین، شاعر اہلبیتؑ، ممتاز دانشوران اور معروف محدثین نے ان پاکیزہ مثالی مخدومہ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ اور بے مثال کارنامے ممبروں و محرابوں سے بہت کچھ بیان کیا گیا ہے اور ان پر اب تک جو مضامین، کتابچے، کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان کی مختصر سی ۱۸ سالہ کرب و آلام کی زندگی، جس عمر میں لوگ زندگی کی تمنا کرتے ہیں وہ موت کی تمنائ ہے۔ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں جلیلہ و عالمہ زہراؑ کم عمری میں شہادت نوش فرمائیں۔ یہ دنیا کا واحد المیہ ہے کہ ان کی شخصیت کی نمایاں خدمات و خال ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا، تحقیق و ترسیل پورے آب و تاب سے رواں و دواں ہے لیکن پھر بھی ان عظیم مرتبت سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کو جہاں تک ممکنہ جو کچھ معلوم ہو سکا وہ اب بھی بی بی سیدہؑ کی ان عظمت کو قلوب کی گہرائی و گیرائی سے قبول کرتے ہیں۔
اپنے جگر کا ٹکڑا اور باعث سکون قلب سیدہ فاطمہؑ کے سلسلہ میں رحمت العالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰیؑ کا ارشاد گرامی ہے: "فاطمتہ بضعتی منی" فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ اس گوشۂ قلب رسول اکرمؐ کو سمجھنے کے لیے سید البشر و خلق عظیم کا ایک اور ارشاد گرامی پیش کرنا مقصود ہے، ذہن نشین کرنا حق میں بہتر ہوگا: 'جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا اور جس نے مجھ کو ناراض کیا اس نے اللہ کا غیظ، غضب و قہر حاصل کیا۔' اس حدیث مبارکہ سے سبھی طول و عرض میں بخوبی واقف ہیں کہ سید الانبیاء سیدہ فاطمہؑ کو دیکھ کر عزت و احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے جب کے حضرت علیؑ کو دیکھ کر ان کے استقبال میں کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ سید الملائکہ کی تعظیم میں بھی کھڑے نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی بزرگ، صدیق، فاروق، یا غنی صحابی کی تعظیم، حرمت و تکریم میں کھڑے ہوئے۔ آخر سیدہ زہراؑ کو دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے۔
راقم الحروف قرآنی آیات، مستند احادیث اور قابل فراموش روایات کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ قرآن نمونۂ عمل ہے لیکن یہ سامت ہے۔ انسان دو طرح کے ہیں۔ مرد اور عورت۔ مردوں کے لیے اُسوۂ عمل خود رسول اکرمؐ ہیں لیکن خواتین حضرات کے لیے فاطمہؑ ہی کار رسالت تھیں، لہٰزا یہ بھی قابل قبول نقطہ ہے کہ پروٹوکول کی پیروی اور اس کے مدنظر، اخلاقیات کی بنیاد پر لازم ہے۔ اس مقام پر مفید ذکر ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کو رسول اکرمؐ نے اپنا خلیفہ قرار دیا۔ قابل غور امر ہے کہ لفظ 'خلیفہ' خلف سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے 'بعد' اصل گزر جانے کے بعد خلیفہ قائم مقام ہوگا۔ کسی شخص کو دیکھ کر اُٹھنے کے معاملے میں اس کے منصب و عہدہ پروٹوکول کے لیے عمل میں لایا جائے گا۔ حضرت علیؑ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خلیفہ قرار پائے اور جبکہ فاطمہؑ ہم منصب، کار رسالت میں شامل ہیں۔ یہی اہم وجہ تھی کہ حضرت فاطمؑ کو دیکھ کر حضرت محمد مصطفٰیؐ کھڑے ہو جاتے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مخصوص اور اہم القاب کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے ان القاب کا ذکر محض جگہ کا احاطہ کرنا یا ذاتی علمی مظاہرہ مقصود نہیں ہے بلکہ ان القاب کے معنی و مفہوم کے ذریعہ حضرت فاطمہؑ کی سیرت طیبہ کی پیروی کرتے ہوئے کردار سازی کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ القاب کے پس پردہ مقصد ہے۔ مقصد کامیابی و کامرانی کی طرف مائل کرتی ہے۔ لیکن مقصد سے واقفیت، بہرحال، ہر صورت میں لازمی ہے کیونکہ یہی منازل طئے کرتے ہوئے اہداف عبور کرنے میں مدد گار و معاون ثابت ہوگا۔
کسی بھی شخص کے لقب کے مطابق علم و ہنر، فن و فہیم، لیاقت، فضل و کرامت وابستہ ہوتا ہے۔ فاطمہ زہراؑ کے چند چنندہ القاب بچوں کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ آیا یہ القاب کہاں تک ان کی شخصیت کے عین مطابق ہے۔
آخر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو "ام ابیھا" کیوں کہا جاتا ہے؟ بچوں کے لیے مزید جامع انداز میں وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ ماں دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک حیاتیاتی ماں جسے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنا فرض کچھ اس طرح سے پورا کرتی ہے جیسے بچے کی پیدائش، دیکھ بھال اور پرورش۔ دوسری طرح کی ماں، ام ابیھا کے سیاق میں اپنی ماں کی طرح اپنے والد بزرگوار کو ہر طرح کا آرام و ضروریات فراہم کرنا۔ اپنے والد کا ہر بات کا خیال رکھنا۔ اس کو حدیث کسا ٕ، چادر کی کہانی کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک روز فاطمہ زہراؑ کے والد ضعف محسوس کیا۔ وہ ان کے گھر آئے۔ انہوں نے اپنی یمنی چادر دی۔ حدیث کسا ٕ کی پوری کہانی کو در کنار کرتے ہوئے لب و لباب یہ ہے کہ یک بعد دیگر پنجتن پاک چادر میں داخل ہوئے۔ گویا بیٹی کے گھر میں والد نے آرام فرمایا۔ لقب ام ابیھا کو ان واقعات سے منسلک کرنا فرض ہے کہ اُحد کے میدان میں صحابہ کرام رسول اکرمؐ کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ آپؐ ٹوٹے دانتوں کے ساتھ خون میں لت پت پڑے تھے۔ اس نازک گھڑی میں جب فاطمہؑ کو اپنے والد کے زخمی ہو ے کی خبر ملی تو وہ جلد بھاگ کر میدان جنگ میں پہنچ گئیں۔ انہوں نے ماں کی طرح تیمارداری اور دیکھ بھال کی۔ اسی طرح ایسے بیشمار واقعات اسلام کی تاریخ میں موجود ہیں۔ تاحیات اپنے والد کی آسائشیں عین ماں کی طرح فراہم کیں۔
امید قوی ہے کہ اگر قوم کی خواتین حضرات اپنے بچوں کی تربیت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو نمونۂ عمل بنا لیا تو ان کے بچوں میں عکس حسنین کریمینؑ نظر آئے گا اور بچیوں میں زینبؑ و ام کلثومؑ کے کردار کی جھلک عیاں ہوگی۔