حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سرسی/ ملتِ جعفریہ کی ممتاز علمی، تعلیمی اور سماجی شخصیت پروفیسر مولانا ڈاکٹر محمد حسین جعفری کے انتقال نے علمی و مذہبی حلقوں میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑا دی۔ مرحوم ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے جن کا شمار نہ صرف قوم کے مصلحین اور رہنماؤں میں ہوتا تھا بلکہ وہ ایک پورا ادارہ، ایک کردار اور ایک عہد ساز روایت کا نام تھے۔
مرحوم نے مدرسہ منصبیہ میرٹھ، بابُ العلم نوگانواں اور مدرسۂ ناظمیہ لکھنؤ سے علمی سفر کا آغاز کیا، جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کردہ اعلیٰ تعلیم نے نئی وسعت عطا کی۔ بعدازاں انہوں نے راجپوتانہ یونانی میڈیکل کالج (راجستھان یونیورسٹی) میں طویل عرصے تک تدریسی خدمات انجام دے کر سینکڑوں طلبہ کی علمی تربیت کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وہ اپنے دور کے نمایاں طلبہ اور فعال فکری کردار کے حامل افراد میں شمار ہوتے تھے۔
اپنی زندگی کے آخری مراحل میں انہوں نے سادات ڈگری کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے لیے اپنی ذاتی زمین وقف کر دی۔ ایک طبیہ کالج قائم کرنے کی بھی دیرینہ آرزو رکھتے تھے، جس پر عملی کام کا آغاز ہوا مگر تکمیل نہ ہو سکی۔ مرحوم نے اولاد نہ ہونے کے باوجود درجنوں بچوں اور بچیوں کی سرپرستی و کفالت کو اپنا مشن بنا لیا، جس پر انہیں عوامی سطح پر بے حد احترام اور محبت ملی۔
مرحوم کی رحلت پر ممتاز علما، اساتذہ اور سماجی شخصیات نے گہرے رنج و افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مولانا محمد اطہر کاظمی، سید قمر عباس نقوی، اور متعدد علمی شخصیات نے مرحوم کی خدمات کو ’’قوم کے مستقبل ساز معمار‘‘، ’’منکسرالمزاج مصلح‘‘، ’’خدمت خلق کے پیکر‘‘ اور ’’علم و کردار کے چراغ‘‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔
اس موقع پر جامعة المصطفیٰ العالمیہ کے معاونِ ثقافت و تربیت محمد رضا صالح نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ ڈاکٹر جعفری کی اہلبیتؑ سے محبت اور خدمتِ دین میں اخلاص ان کے لیے آخرت میں بلند درجات کا موجب ہوگا۔
واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین جعفری، مولانا سید منظور عالم جعفری کے ماموں تھے۔ تعزیتی پیغامات میں مختلف شخصیات نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی وفات کو محض ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک عہد، ایک باوقار کردار اور ایک مثبت فکر کے خاتمے سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کو جوارِ اہلبیتؑ میں بلند درجات اور ابدی سکون عطا فرمائے اور لواحقین و متعلقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔









آپ کا تبصرہ