منگل 2 دسمبر 2025 - 14:14
کیا حضرت فاطمہ (س) پر مظالم کی روایات ضعیف السند ہیں؟

حوزہ/ جس طرح قرآن کریم کے بارے میں یہ ہے کہ"یفسر بعضه بعضا" اس کی بعض آیتیں دوسری بعض آیتوں کی تفسیر کرتی ہیں، اسی طرح روایت کو سمجھنے کے لیے بھی عقل و درایت کی ضرورت ہے۔حضرت فاطمه زھرا(س) پر ڈھائے گئے تمام مصائب کا اگر اس بہانے سے انکار کر دیا جائے کہ اس سلسلے میں موجود روایات ضعیف ہیں، تب بھی اس ظلم کو چھپایا نہیں جاسکتا، چونکہ بی بی (س) کے فضائل کے باب میں جو روایات موجود ہیں وہ اس ظلم ناروا کو طشت ازبام کر دیتی ہیں۔

تحریر: حجت الاسلام سید مختار حسین جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی|

جس طرح قرآن کریم کے بارے میں یہ ہے کہ"یفسر بعضه بعضا" اس کی بعض آیتیں دوسری بعض آیتوں کی تفسیر کرتی ہیں، اسی طرح روایت کو سمجھنے کے لیے بھی عقل و درایت کی ضرورت ہے۔حضرت فاطمه زھرا(س) پر ڈھائے گئے تمام مصائب کا اگر اس بہانے سے انکار کر دیا جائے کہ اس سلسلے میں موجود روایات ضعیف ہیں، تب بھی اس ظلم کو چھپایا نہیں جاسکتا، چونکہ بی بی (س) کے فضائل کے باب میں جو روایات موجود ہیں وہ اس ظلم ناروا کو طشت ازبام کر دیتی ہیں۔

مشہور ترین حدیث ہے:" فاطِمَۃُ بَضعَۃٌ مَن آذاھا فقد آذانی"، فاطمہ میرا ٹکرا ہے۔ جس نے ان کو ستایا اس نے مجھے ستایا۔

اس حدیث میں پیغمبر(ص) نے کہ جو علم غیب رکھتے تھے صراحت کے ساتھ فاطمه زھرا(س) کو اذیت کرنے سے منع کیا ہے اور فاطمه(س) کی اذیت کو اپنی اذیت قرار دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر کچھ ہونے ہی والا نہیں تھا تو اس کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

بخاری کی دوسری حدیث میں" من اغضبھا فقد اغضبنی" آیا ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں" یوذینی ما آذاھا" آیا ہے ، سنن ترمذی، مسند احمد بن حنبل، المستدرک للحاکم میں بھی اسی مضمون کی احادیث موجود ہیں اور ان کی صحت ہر اہل سنت کے محدثین کا اتفاق ہے۔

یہ ساری حدیثیں حفظ ما تقدم کی نوعیت رکھتی ہیں۔ سرکار(ص) نہیں چاہتے تھے کہ امت آپ(ص) کے بعد اس طرح کے کسی ظلم و ستم کی مرتکب ہو۔ عمر مبارک کے آخری حصے میں بھی سرکار رحمت(ص) نے قلم و دوات کا مطالبہ کیا تھا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ(ص) اپنے اہل بیت(ع) کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے، اور جانشینی کے حوالے سے امت جس بھنور میں گرفتار ہونے جا رہی تھی اس سے بچانا چاہتے تھے۔ لیکن تاریخ نے دیکھا اور لکھا کہ جس فکر و آئیڈیالوجی نے قلم و دوات دینے سے انکار کیا تھا، اسی فکر و آئیڈیالوجی نے دختر رسول(س) کو ان کے حق سے محروم کیا، ان کے گھر میں آگ بھی لگائی، پہلو پر دروازہ بھی گرایا، محسن کو بھی شھید کیا اور وہ سب کچھ کیا کہ جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں: کچھ نہیں ہوا اور اپنی ہی کتابوں میں جو کچھ موجود ہے اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔

ان سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کچھ نہیں ہوا تو وہ ضعیف روایتیں کہاں سے آئیں؟

اور کیوں بعض علمائے اہل سنت نے ان روایتوں کو لکھا اور نقل کیا؟

حق تو یہ ہے اس کے بر عکس ہونا چاہیے تھا۔ رسول(ص) کی پارۂ جگر کے ساتھ اگر بدسلوکی نہیں ہوئی تھی تو کیا رحلت پیغمبر(ص) کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک ہوا؟ امت نے ان کو تسلیت و تعزیت پیش کی؟ نبی(ص) کے جنازے اور تدفین میں کون کون شریک ہوا؟

کہیں گے یہ بھی اختلافی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آنحضور(ص) کے حکم کے بعد اتنا کچھ اختلافی کیوں ہے؟ اور اس اختلاف کی وجہ کون ہے؟

اگر معاذالله خاکم بدھن کوئی اہلبیت(ع) اور فاطمه زھرا(س) یا مولا علی(ع)، پر اس اختلاف کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، تو آیہ مباھلہ اور آیہ تطھیر کی روشنی میں کیا وہ قرآن کا دشمن نہیں ہے؟!! یقیناً وہ قرآن کا دشمن اور منکر ہے۔

اگر آپ کے دل میں قطرہ بھر بھی رسول(ص) اور آل رسول(ع) کی محبت ہے اور پروردگار کے نزدیک ان کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کی اہمیت کا احساس ہے تو بی بی(س) کے فضائل پر مبنی جو حدیثیں ہیں ان کو بخاری، مسلم اور دیگر اہل سنت کی ان حدیثوں سے ملا کر دیکھیے کہ جن میں دختر رسول(س) کے گھر پر حملے کا ذکر ہے، دروازہ جلانے کا تذکرہ ہے، محسن کی شھادت کا ذکر ہے، مسجد میں بنت نبی(س) کے احتجاج کا بیان ہے، فدک کی واپسی کے لیے دربار خلافت میں حاضری کی داستان ہے، اور نہ جانے کیا کیا ہے۔ تو آپ سمجھ جائیں گے کہ پیغمبر(ص) نے فضائل کی حدیثوں میں ان سارے واقعات کی طرف اشارہ کیا تھا اور نبی رحمت(ص) امت کے ٹھیکیداروں کو گناہ و معصیت کی اس گہری کھائی میں گرنے سے بچانا چاہتے تھے۔

کیا سرکار دوعالم(ص) کی یہ حدیث کہ جس میں آپ(ص) نے فرمایا:"مَا أُوذِی نَبِی مِثْلَ مَا أُوذِیتُ" بھی ضعیف ہے؟ اس حدیث کا واضح مصداق بھی وہی اذیت ہے جو فاطمہ زھرا(س) کو دی گئی، ورنہ نبی رحمت(ص) کی حیات طیبہ میں اتنی بڑی اذیت نہیں ملتی کہ جیسی اذیتیں سابقہ انبیاء کو دی گئیں۔

نبی رحمت(ص) نے حدیث ثقلین ارشاد فرمانے کے بعد تین(۳) مرتبہ فرمایا:" اذکرکم فی اهل‌بیتی، اذکرکم فی اهل‌بیتی، اذکرکم فی اهل‌بیتی"، میں تمہیں اہلبیت(ع) کے بارے میں یاد دلاتا ہوں۔ اگر اھلبیت(ع) کے ساتھ کچھ نہیں ہونے والا تھا تو اتنا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

اہل سنت کے بعض محدثین و مفکرین کے اپنے ہاتھ میں ہے، جس حدیث کو جب چاہیں ضعیف قرار دے دیں، کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ خاص طور ہر اہلبیت(ع) کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، یا تو ان کی بے مطلب کی توجیہ کرتے ہیں، یا سرے سے ضعیف قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ کلام بولتا ہے اور حدیثیں بولتی ہیں اور آواز دیتی ہیں کہ سب کچھ ضعیف ہو سکتا ہے لیکن وہ کلام جس میں اہلبیت(ع) کی مظلومیت کا ذکر ہے وہ ضعیف نہیں ہو سکتا۔

صاحبانِ عقل کو اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ معیار اور کسوٹی رسول(ص) کی ذات ہے:" وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا" ، جو رسول(ص) تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے رسول(ص) منع کریں اس سے باز رہو۔

اور یہ چیز مسلم الثبوت ہے کہ رسول(ص) نے قرآن و اہلبیت(ع) کو امت کے حوالے کیا ہے، تاکہ ان دو کی اطاعت اور پیروی کریں نہ کہ ان کا مقابلہ کریں اور ان کے سامنے قد علم کریں۔

وہ قرآن جو والدین کی اطاعت کے بارے میں، ان کے سامنے 'اُف' تک کو گوارا نہیں کرتا، وہ رسول(ص) اور اہلبیت(ع) کی اطاعت کے بارے میں، بحث اور ہٹ دھرمی، بدبینی اور شکوک و شبہات کو کو کیسے گوارا کرے گا؟

جبکہ مقام اہلبیت(ع) قطعاً والدین سے اونچا ہے۔

سرکار(ص) نے فرمایا ہے:" أَنَا وَ عَلِی أَبَوَا هَذِهِ الْأُمَّةِ"، میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔ پیغمبر(ص) کے جانے کے بعد اگر علی(ع) نا ہوتے تو امت یتیم ہوتی، لیکن جب باپ موجود ہے تو اس کی مرضی اور شمولیت اور اجازت کے بغیر کہیں بھی، کوئی بھی، اور کسی بھی عہدے اور منصب کے بارے میں فیصلہ کس دین اور شریعت کی رو سے جائز ہے؟

امت کی بدنصیبی یہ ہے کہ امت رسول(ص) ہی کو نہیں سمجھ پائی تو اہلبیت(ع) کو کیا سمجھتی!!!

قرآن مجید میں جو رسول(ص) کے فضائل و کمالات اور مقامات و مناصب بیان ہوئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اعتراض کے انداز میں پلک جھپکانا بھی کفر ہے، تو جن کو رسول(ص) امت کی ہدایت کے لیے چھوڑ کر جائیں، ان کے مقابلے میں سر کو ہلکی سی جنبش دینا بھی انسان کو قعر جہنم پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

رسول(ص) نے اگر فرمایا:" فاطِمَۃُ اُمُّ اَبیھا" تو کیا اس میں رسول(ص) نے معاذالله مبالغے یا غلو سے کام لیا ہے؟؟ ہر گز نہیں!

بلکہ سرکار دوعالم(ص) امت کو اپنی دختر کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ خبردار! ان کی شان میں گستاخی رسول(ص) کی شان میں گستاخی سے بھی بڑھ کر ہے۔

اب باقی تمام باتیں نظر انداز کرتے ہیں اور مدافعین اہل سنت کی اس بات کو مان لیتے ہیں کہ ایسا کچھ کیا گیا کہ جس سے فاطمہ (س) ناراض ہوئیں۔ تو کیا فاطمہ(س) کا ناراض ہونا ان کو جنت میں لے جائے گا؟، فاطمہ(س) کا وہ مقام ہے کہ ان کے سامنے کسی کو اف تک کرنے کی اجازت نہیں، فاطمہ(س) سے گواہی مانگنا سب سے بڑی گستاخی ہے، فاطمہ(س) کو دربار میں کھڑے رکھنا اس سے بڑی گستاخی ہے، فاطمہ(س) کو مسجد میں داخل ہونے پر مجبور کرنا اس سے بھی بڑی گستاخی ہے، فاطمہ(س) کا غم نہ بانٹنا انسانیت اور رسالت کا قتل ہے، فاطمہ(س) کے شوہر سے بیعت کا مطالبہ کرنا خدا سے دشمنی اور دین کا قتل ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha