۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مولانا سید احمد علی عابدی

حوزہ/ حوزہ علمیہ جامعۃ الامام امیرالمومنین علیہ السلام "نجفی ہاؤس" ممبئی کے مدیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام کی عظمت و بلندی کو خود کلام معصومین علیہم السلام میں تلاش کیا جا سکتا ہے کلام امام وحی خدا کا ترجمان ہوتا ہے آپ کے کلام میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید یونس حیدر رضوی ماہلی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان میں آیت اللہ سیستانی دام ظلہ کے وکیل مطلق، امام جمعہ خوجہ جامع مسجد اور حوزہ علمیہ جامعۃ الامام امیرالمومنین علیہ السلام "نجفی ہاؤس" ممبئی کے مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احمد علی عابدی نے جامعۃ الامام امیر المؤمنین علیہ السلام نجفی ہاؤس ممبئی کے اساتذہ و طلباء سے حوزۃ المہدی عج حیدر آباد میں سہ روزہ ملاقاتی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے امام وقت کی عظمت و بلندی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہم امام کی زیارتوں اور دعاؤں میں پڑھتے ہیں زنۃ عرش اللہ و مداد کلماتہ وما احصاہ علمہ و احاط بہ کتابہ۔۔۔۔ وہ صلوات و سلام جو عرش سے بھی زیادہ عظیم ہے ہم صبح و شام اسے پڑھ کر ان کی عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

حجت الاسلام والمسلین علامہ سید محمد الموسوی:

انسان کی سب سے بدترین جہالت کہ وہ قرآن نہیں جانتا

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ امام کی عظمت و بلندی کو خود کلام معصومین علیہم السلام میں تلاش کیا جا سکتا ہے کلام امام وحی خدا کا ترجمان ہوتا ہے آپ کے کلام میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ لیکن جو کلمات امام زمانہ عج کے سلسلے میں ملتے ہیں وہ کسی اور کے لئے نہیں ملتے۔ اگر صرف یہ ایک ہی حدیث پر غور کر لیا جائے تو امام وقت کی عظمت و بلندی خود بخود سمجھ میں آجائے گی جس میں صادق آل محمد علیہم السلام ارشاد فرماتے ہیں: ۔۔۔لو ادرکتہ لخدمتہ۔۔۔ اگر مجھے ان کا زمانہ مل جائے اور میں امام آخر کو درک کر لوں تو ساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہوں۔۔۔ یعنی امام صادق علیہ السلام کچھ دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے آیۃ اللہ صافی طاب ثراہ کی ایک حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کہ راوی سدیر صیرفی سے ہے۔ کہتے ہیں ایک دن ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں باریاب ہوئے۔ دیکھا امام زار زار آنسو بہا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: سَیِّدِی! غَیْبَتُکَ نَفَتْ رُقَادِی، وَضَیَّقَتْ عَلَیَّ مِهَادِی، وَابْتَزَّتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی. سَیِّدِی! غَیْبَتُکَ أَوْصَلَتْ مُصَابِی بِفَجَائِعِ الْأَبَدِ، وَفَقْدُ الْوَاحِدِ بَعْدَ الْوَاحِدِ یَفْنِی الْجَمْعَ وَالْعَدَدَ ...؛ امام کسی کو اپنا سید و سردار کہیں۔۔۔ اے میرے سردار، اے میرے آقا۔۔۔ آپ کی غیبت نے میری آنکھوں کی نیند اڑا دی ہے میرے چین و سکون کو چھین لیا ہے۔ سدیر صیرفی کہتے ہیں میں تو امام کی یہ بات دیکھ کر گھبرا گیا اور مین نے امام سے کہا مولا آپ تو ایسے رو رہے ہیں جیسے آپ کے ساتھ کوئی بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہو۔۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: آج میں کتاب جفر پڑھ رہا تھا اس میں میں نے اپنے آخری کی غیبت کو دیکھا۔

وہ امام جس کا اتنا درجہ ہو اج وہ امام ہمارے درمیان سب سے زیادہ مظلوم ہے ، سب سے کم اگر کسی کا تذکرہ ہے تو اسی امام کا ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی مشکل ہوتی ہے، کوئی پریشانی آتی ہے تو ہمہم ہر در پہ جاکر حاضری دیتے ہیں مگر فرزند زہرا سے اپنی مشکلات کو بیان نہیں کرتے۔ جبکہ فرزند زہرا سلام اللہ علیہا کے در پہ جانے کے لئے ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف مصلے تک جانے کی ضرورت ہے۔ مصلے پر بیٹھ کر کے کہیں السلام علیک یا صاحب الزمان۔۔ وہ ہمارے باپ ہیں بلکہ وہ ہمارے باپ سے زیادہ شفیق ہیں ہماری ماؤں سے زیادہ مہربان ہیں، یہ پوری کائنات ان کے ہاتھوں پر اسی طرح ہے جیسے کسی کے ہاتھ میں سکہ رکھا ہو۔ وہ مٹی کو سونے اور پتھر کو ہیرے میں بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اور اج جو کچھ ہمارے حصے میں ہے وہ سب امام وقت کی نسبت سے ہے۔

آیۃ اللہ وحید خراسانی جو واقعا ولایت کا ایک عظیم زخیرہ ہیں وہ نقل کرتے ہیں کہ آیۃ اللہ العظمی آقائے مرزائے شیرازی صاحب فتوی تحریم تمباکو آخر عمر میں آنکھوں کی بینائی کمزور ہو گئی تھی عمومی ملاقات انہوں نے بند کر دی تھی آنکھوں کی بینائی کمزور ہو جانے کے باوجود ان کا پڑھنے کا ذوق ختم نہیں ہوا تھا روزآنہ اپنے شاگرد کو بلاتے تھے اور شاگرد سے کتاب کو سنتے تھے تاکہ ذوق مطالعہ باقی رہ جائے۔انکھوں کی بینائی کی کمزوری نے بھی ذوق مطالعہ کو ک۔ نہیں ہونے دیا۔ ایک دن اپنے شاگرد کے ساتھ بیٹھے کتاب کو سن رہے تھے۔ دروازے پر کوئی شخص ایا کہا مجھے میرزا سے ملنا ہے۔ خادم نے کہا وہ کسی سے نہیں ملتے اب انہوں نے ملاقات بند کر دی ہے۔ آنے والے نے کہا اچھا میرا نام لکھ کر آقا کو دے دو خادم نے وہ نام لے جا کر پیش کیا جیسے ہی نام کو سنا خود استقبال کے لئے دروازے تک گئےاور لا کر اپنے بغل میں بیٹھایا اور فرماتے ہیں میں حاضر ہوں میرا سارا اجتہاد، جتنے میں نے شاگرد تربیت کئے ہیں وہ، جتنی میں نے کتابیں لکھی ہیں، آج تک میں نے جتنی خدمت کیا ہے وہ سب کو سجا کر میں اس شخص کو تحفے میں دینا چاہتا ہوں اور انہوں نے جو کام کیا ہے میں اسے لینا چاہتا ہوں۔ وہ میرزائے شیرازی جو بلاشبہ تمام عالم اسلام کے مرجع تھے جنہوں نے ایک فتوے سے پورے ایران کو ہلاکت سے بچایا تھا حاضر ہیں اپنی چالیس پچاس سال کے درس و دروس،اجتہاد، کتابیں اور خدمات کو اس شخص کو سجا کر تحفے میں دیں۔ شاگردوں نے پوچھا آخر ایسا کیوں تو آپ نے بتایا ہم دونوں لوگ ایک ساتھ پڑھتے تھے درس تمام کرنے کے بعد میں اجتہاد کی طرف چلا گیا اور یہ ایک گاؤں میں چلے گئے جہاں کوئی شیعہ نہیں تھا ار کوئی قدر کرنے والا نہیں تھا یہ ایک مسجد میں گئے اور وہاں رہ کر لوگوں کو قرآن پڑھایا بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اور دوران تعلیم احادیث اہل بیت علیہم السلام سے آشنا کرایا اور دھیرے دھیرے جہاں لوگ شیعہ نہیں تھے بچوں کو اہل بہت علیہم السلام سے آشنا کر کے شیعہ بنایا تو میں چاہتا ہوں انکی تعلیم قرآن کا ثواب مجھے مل جائے۔

مزید پڑھیں:

حیدرآباد دکن میں ابنائے جامعۃ الامام امیرالمؤمنین کا عظیم الشان سمینار

انہوں نے مزید مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا یہ اکاونٹ آج بھی کھلا ہوا ہے۔ خدا نے یہ توفیق ہم سب کو دی ہے کہ جہاں کہیں بھی ہیں لوگوں کو قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیم دے کر اپنے لئے آخرت کا ذخیرہ فراہم کریں یہ وقت گزر جائے گا اور ہم حسرتیں لے کر دنیا سے چلے جائیں گے۔ اس وقت ہماری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اپنے امام وقت سے نزدیک کریں۔

آخر میں کہا کہ اگر آپ کسی کو ایک پھول تحفے میں پیش کریں تو کم از کم پلٹ کر وہ آپ کا ایک شکریہ تو ادا کرے گا۔ جو وادئ تلاوت ہے وہ بھی تو صبح نماز کے بعد قرآن پڑھتا ہے۔ کیسے ممکن ہے ہم اسے صبح و مساء سلام کریں اور وہ ہمارے سلام کا جواب نہ دے۔ غریب ایک پھول دیتا ہے اور بادشاہ ملک عطا کرتا ہے۔

ہے یقیں اس کی عطاؤں پہ مجھے اے یونس
جب بھی دے گا وہ مجھے حد سے زیادہ دے گا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .