منگل 11 مارچ 2025 - 15:43
مدافع رسول، حضرت خدیجہ الکبریٰ (ع)

حوزہ/ نبی اکرم (ص) نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے متعلق فرمایا:کہاں ملے گی خدیجہ کی جیسی (خاتون) جب مجھے لوگ جھٹلاتے تھے تو خدیجہ نے میری تصدیق کی، خداوند کے دین میں میری پشت پناہ ثابت ہوئیں، اور اپنے مال کے ذریعے سے میری خدا کے دین میں مدد کی، اللہ عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت میں زمرد سے بنے محل کی خوشخبری خدیجہ کو دوں، وہ ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی رنج ہوگا نہ کوئی زحمت ہو گی۔

تحریر: مولانا محسن عباس جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی|

أَیْنَ مِثْلُ خَدِیجَةَ؟! صَدَّقَتْنِی حِینَ کَذَّبَنِی النَّاسُ‏ وَ وَازَرَتْنِی عَلَی دِینِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِی عَلَیْهِ بِمَالِهَا. إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ، أَمَرَنِی أَنْ أُبَشِّرَ خَدِیجَةَ بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ، لَا صَخَبَ فِیهِ وَ لَا نَصَب.

نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے متعلق فرمایا:کہاں ملے گی خدیجہ کی جیسی (خاتون) جب مجھے لوگ جھٹلاتے تھے تو خدیجہ نے میری تصدیق کی، خداوند کے دین میں میری پشت پناہ ثابت ہوئیں، اور اپنے مال کے ذریعے سے میری خدا کے دین میں مدد کی، اللہ عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت میں زمرد سے بنے محل کی خوشخبری خدیجہ کو دوں، وہ ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی رنج ہوگا نہ کوئی زحمت ہو گی۔ہم لوگ دنیا میں رہتے ہیں اور یہاں کی زندگی کے کچھ عمومی قوانین ہیں جو سب افراد کے لئے یکساں ہیں حتیٰ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیئے بھی وہی قوانین ہیں۔

از جملہ قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے کہ جب تک آپ کے پاس طاقت نہیں ہوگی آپ اپنا پیغام دوسروں تک نہیں پہنچا پائیں گے آپ لاکھ سچے ہوں امین ہوں وغیرہ وغیرہ لیکن جب تک آپ کے پاس طاقت نہیں ہوگی آپ کا پیغام دوسروں تک نہیں پہنچے گا۔

طاقت کا جب تجزیہ کریں تو طاقت کی کم از کم تین قسمیں ہیں جب تک یہ تین طاقتیں یک مشت نہ ہوں باہم جمع نہ ہوں اقتدار مکمل نہیں ہوتا جب اختیار و اقتدار نہیں ہوگا جب طاقت نہیں ہوگی تو آپ پیغام بھی نہیں پہنچا سکیں گے سو تینوں کا یکجا ہونا لازمی ہے ۔

طاقت کا سب سے پہلا مظہر علم ہے اور یہ مہم ترین رکن ہے اگر یہ رکن نہ ہو تو فساد پھیلے گا یا وحشی گریو افراتفری پھیلے گی۔

اور علم کی شریف ترین قسم علمِ لدنی ہے، بلکہ اس کے علاؤہ علم ہے ہی نہیں، علمِ لدنی یعنی حقیقی علم جو دنیا و آخرت میں انسان کے ساتھ ہو اور صحیح اور اصلی منبع سے لیا جائے۔ خطا، انحراف سے پاک ہو خلاصہ وہ علم جو خالقِ علم کی جانب سے ہو لوح محفوظ سے ہو یعنی وحی ہو ۔

اور طاقت کا دوسرا مظہر دفاع ہے، کیونکہ ہر پیغام کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیش آتی ہے دنیا میں رہتے ہوئے اس سے بھی گریز ممکن نہیں اور بالخصوص جب پیغامِ حق کی بات ہو تو خواہ نخواہ اس کے مقابلے باطل، خواہشات، ذاتی منافع، انحرافی راہیں حتماً آئیں گی اور باطل حملہ ور ہو گا لہٰذا دفاع ضروری ہے جس سطح کا حملہ ہو اس سطح کا دفاع ضروری ہے ورنہ پیغام نہیں پہنچا سکتے ۔

اور طاقت کا تیسرا مظہر مال ہے دنیا میں مال کے بغیر، خرچے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا، انفاق کرنا، مال خرچ یہ بھی بنیادی ترین مسائل میں سے ہے، طولِ تاریخ میں مال کے ذریعے سے علم اور دفاع کو مجبور کیا گیا مال سے محروم رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کا اثر کمترین ہو یا بالکل نہ ہو۔ نجانے کتنے اہلِ علم اہل حق حق و حقیقت کو اپنے سینوں میں لیئے زیرِ خاک چلے گئے، کیونکہ وسائل سے محروم تھے، مال و معیشت ہےجو انسان کو قیام و قوام دیتا ہے۔

فرمایا:وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۵﴾

اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔

خدا پناہ دے ایسی قوم سے جہاں امیر, سفیہ اور بےوقوف طبقہ ہو جنہیں شناخت نہ ہو کہ کہاں خرچ کرنا ہے۔

اگر علم، دفاع کی خدمت میں ہو یعنی مدافع لیڈر ہو سب کچھ دفاع کی خدمت میں ہو تو معاشرے میں عقل، شعور ، صبر، حکمت عملی نام کی چیز نہیں ہوگی کیونکہ علم اسیر ہے،لہٰذا دنیا میں کسی ملک کا تمام تر اختیار افواج کو نہیں دیتے ورنہ دفاع کون کرئے گا؟

دفاع اپنے مقام پر بہت مہم ہے اگر دفاع نہ ہو تو کچھ بھی نہیں کر سکتے جہاں بھی جو کچھ بھی ہو رہا ہے مدافعین کی برکت سے ہے مدافع کے لئے دفاع کے علاؤہ کوئی دیگر کام مناسب نہیں کیونکہ جب مدافع کسی دوسرے کام میں لگ جائے گا تو اس کے حصے کا دفاع نہیں ہو پائے گا اور اگر کسی قوم کے سب مدافعین ایک ایک کر کے دفاع چھوڑ دیں تو یہ مخالفین اور دشمنوں کے لئے لذید لقمے سے کم نہیں لیکن اگر سب کچھ دفاع کی نذر ہو جائے بالخصوص علم اگر دفاع کی نذر ہو جائے تو بھی نظام نہیں چل پائے گا دفاع ایک شعبہ ہے ایک ہی رہے تو موزوں ہے۔

پس علم دفاع کی خدمت میں نہ ہو، کیونکہ دفاع اور علم دونوں علیٰحدہ علیٰحدہ چیزیں ہیں، لیکن دفاع علم کی خدمت میں ضرور ہونا چاہئے دفاع وہ طاقت ہے جو کسی بھی جسم کے ہر عضو میں ہونی چاہئے اگر بال اور ناخن میں بھی طاقت نہ ہو تو سر گنجا ہو جائے گا اور ہاتھ کسی چیز کو نہیں لگا پائیں گے دفاع وہ طاقت ہے جو معاشرے کے ہر فرد میں ہونی چاہیئے جس فرد میں طاقت نہ ہو دوسروں پر بوجھ ہے جس معاشرے میں طاقت نہ ہو وہ دنیا پر بوجھ ہے بشرطیکہ ذہن سالم ہو علم سالم ہو۔

اسی طرح اگر علم، مالدار، لیڈر، امیر کی خدمت میں ہو تو اعلیٰ درجے کا فساد ہو گا مالدار کی ترجیح مال بچانا مال بڑھانا ہے وہ چاہتا ہے بے حد، سے زیادہ مال میں اضافہ ہو لیکن علم کی ترجیح مال کو وسیلہ قرار دینا ہے خرچ کرنا ہے، لیکن اگر دفاع اور مال سبھی علم کی خدمت میں ہوں تو یہ نظامِ احسن ہے۔

اگر جسم کی مثال دیں تو

علم، دماغ کی طرح ہے

دفاع، اعضاء کے جیسا ہے

اور مال خون کی مانند ہے

جس جسم میں ہر عضو میں مناسب خون موجود ہو اعضاء بھی سارے سلامت ہوں، لیکن دماغ صحیح نہ ہو اس کو پاگل، دیوانہ، مستانہ کہتے ہیں، کیونکہ اس کے جسم کا امام علم یعنی دماغ نہیں ہے یہ اعضاء بغیر علم کے چلتے ہیں یہ خون بغیر علم کے چل رہا ہے، لیکن اگر دماغ سالم ہو تو اعضاء کی کمی کا جبران بھی ہو سکتا ہے خون کی کمی کا علاج بھی ممکن ہے۔پس اصل علم ہے:حدیث میں ہے «العلم سلطان من وجده صال و من لم یجده صیل علیه» علم کی طاقت ہے جس کے پاس علم ہو گا وہ غالب آ جائے گا وہ دوسروں کو اپنے پیچھے چلا لے گا اور جس کے پاس علم نہیں ہو گا وہ مغلوب ہو جائے گا دوسرے اس کو اپنے پیچھے چلا لیں گے۔

دنیا تب اپنی اصلی حالت پر آئے گی جب سب کچھ علم کی خدمت میں ہو، لہٰذا اوپر، اعلیٰ درجے پر سب سے بڑے عہدے پر دماغ ہو امام علم ہو باقی سب اعضاء سَر سے نیچے ہوں تو پھر انسان ہے ورنہ انسان نہیں۔

پس تین اصلی طاقتیں ہیں:

علم، دفاع اور مال

بشرطیکہ دفاع اور مال علم کی خدمت میں ہوں۔اسلام میں علم کا مظہر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں جن کے پاس علمِ لدنی ہے، دفاع کا مظہر حضرت ابو طالب اور امیر المومنین علیہما السلام ہیں اور مال حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا تھا۔

اسلام نے کیوں ترقی کی؟ کیونکہ دفاعی طاقت اور مالی طاقت سب کچھ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ۔

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیوں اسلامی نظام میں تبدیلی آ گئی یہاں تک کہ جس منبر پر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے اس منبر پر فاسد ترین انسان نما جا بیٹھے ؟

کیونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رسول اللہ جیسے عالم، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام موجود تھے لیکن نہ مالی طاقت تھی اور نہ ہی مضبوط دفاعی نظام تھا نہ سید الشہداء حمزہ تھے نہ جعفر طیار تھے اور نہ فدک تھا، مال ہی نہیں تھا کہ علی علیہ السلام امت پر خرچ کرتے، و فدک ، خمس و زکات سب کا کنٹرول حکومت کے اختیار میں تھا۔

اور مدافعین کی تعداد بھی اتنی کم تھی کہ دفاع نہیں کر سکتے تھے،نتیجتاً علم تنہا ہو گیا اور جہل مسلط ہو گیا۔

اگر فقط دماغ ہو نہ خون نہ اعضاء کچھ بھی ہوں یہ دفاع کیا کرے گا ؟ یہ سپہ سالار جس کے تحت کوئی سپاہی نہیں یہ کیا کرے گا؟ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز یہی ہے کہ دفاع اور مال علم کی امامت میں آ جائیں۔ یہ معاشرہ ترقی کرئے گا نظریہ پھیل جائے گا اور نظام رائج ہو جائے گا اس نظام کو مبلغ بھی مل جائیں گے۔

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا احسان یہ تھا کہ مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آئیں البتہ خود بھی حضرت کی خدمت میں شرفیاب ہوئیں ، حضرت خدیجہ نے اسلام کو خون دے دیا اور حضرت ابو طالب نے اسلام کو ہاتھ پاؤں دے دیئے یوں اسلام تندرست ہو گیا اور رشد و نمو کرنے لگا تو عجب نہیں کہ ایسی خاتون کا تذکرہ شب معراج آسمان پر بھی ہو، کیونکہ قربانی بہت عظیم تھی۔

عن ابی جعفر علیه السلام قال حدث ابو سعید الخدری ان رسول الله صلی الله علیه و اله قال :ان جبرئیل علیه السلام قال لی لیله اسری بی حین رجعت و قلت یا جبرئیل هل لک من حاجه؟

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ابو سعید خدری نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب شب معراج مجھے لے جایا گیا جس وقت واپس آنے لگے تو میں نے جبرائیل سے کہا کہ کوئی کام ہو تو بتائیے گا ؟قال حاجتی ان تقرء علی خدیجه من الله و منی السلام تو حضرت جبرائیل نے عرض کی جی ہاں ایک کام ہے اور وہ یہ کہ خدیجہ کو جاکر اللہ تعالٰی کی طرف سے اور میری طرف سے سلام دیجئے گا! و حدثنا عند ذالک انها قالت حین لقیها النبی الله صلی الله علیه و اله فقال لها الذی قال جبرئیل فقالت ان الله هو السلام و منه السلام و الیه السلام و علٰی جبرئیل السلام۔

ابو سعید خدری نے ہمیں اس کے متعلق بتایا ہے کہ جب زمین پر آ کر حضرت جبرائیل کا یہ پیغام نبی اکرم نے حضرت خدیجہ کو پہنچایا تو حضرت خدیجہ نے یوں جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ خود سلام ہے اور وہ سلام کا منبع ہے سلام اس سے ہے اور وہ سلام کا مرجع ہے سلام اس کی طرف لوٹ کر جاتا ہے اور جبرائیل پر سلام ہو۔

خداوند عزوجل اور تمام مخلوقات کے لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں رسول اللہ پر حضرت خدیجہ پر اور حضرت جبرائیل پر۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha