منگل 11 مارچ 2025 - 23:44
حضرت خدیجہ (س) سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون تھیں، مولانا مہدی زیدی

حوزہ/مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی تعریف و توصیف خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے سورہ والضحیٰ میں ہے ’’اور ہم نے تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا‘‘ ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ پیغمبر مال خدیجہ کے ذریعے غنی ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاراگڑھ اجمیر کی مسجدِ پنجتنی میں ١٠ رمضان المبارک یومِ وفات حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے بعنوان "یاد محسنہ اسلام حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا" ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، مجلسِ عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطاب کیا، مجلسِ عزاء میں مولانا مظفر حسین نقوی اور مولانا رضی حیدر کے علاوہ مؤمنین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی تعریف و توصیف خداوند عالم قرآن مجید میں فرما رہا ہے سورہ والضحیٰ میں ہے ’’اور ہم نے تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا‘‘ ۔مفسرین نے لکھا ہے کہ پیغمبر مال خدیجہ کے ذریعے غنی ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملیکۃ العرب ہونے کے باوجود آپ نے اپنی ساری دولت اور مال و سرمایہ پیغمبر(ص) کے قدموں میں ڈال دیا کہ اسلام کی نشو و نما کے کام آسکے اور اس طرح ایک ایک کرکے اپنی زندگی کا تمام تر سرمایہ اسلام و مسلمانوں پر نچھاور کر دیا اور خود انتہائی تنگ دستی اور مشکلات بھری زندگی بسر کی، یہاں تک کے شعب ابو طالب میں بائیکاٹ کے دنوں کی سختیوں میں رسول اکرم ص کے ساتھ کئی کئی دن فاقوں میں صرف درخت کے پتوں پر گزارہ کیا جس کے نتیجہ میں آپ کی صحت بھی خراب ہوگئی اور جو آپ کی وفات کا سبب بنی۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ حضرت خدیجہ سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون تھیں، اور انہوں نے اپنی بے پناہ دولت اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی قربانیوں کی بدولت اسلام مضبوط ہوا ہے۔ چنانچہ عایشہ سے روایت ہے وہ کہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ گھر سے باہر نہیں جاتے مگر یہ کہ خدیجہ کا تذکرہ، انکی تعریف اور ان کے لئے استغفار نہ کر لیں۔ ایک دن آپ خدیجہ کا تذکرہ فرما رہے تھے تو مجھے حسد ہوا تو میں نے کہا کہ اللہ نے اس بوڑھی عورت کے بدلے میں آپ کو دوسری بیویاں عطا کی ہیں یہ سننا تھا کہ آپ شدید غضب ناک ہو گئے اور فرمایا خَدیجَةُ وَأیْنَ مِثْلُ خَدیجَةَ، صَدَّقَتْنی حِینَ کَذَّبَنی النَّاسُ وَوَازَرَتْنی عَلی دینِ اللهِ وَأعانَتْنی بِمالِها۔ خدیجہ اور کہاں ہے کوئی خدیجہ جیسی؟ انھوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنا مال و دولت دین خدا کی راہ میں خرچ کر کے میری مدد کی۔

خطیب مسجد پنجتنی نے مزید کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نہ فقط حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شدید محبت فرماتے اور انکا ذکر کرتے بلکہ ان کے چاہنے والوں سے بھی اظہار محبت فرماتے تھے۔ جب بھی جانور ذبح ہوتا تو آپ فرماتے کہ اس میں سے محبان خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے بھی لیتے جاو کیوں کہ إنّی لَأُحِبُّ حَبیبَها میں محبان خدیجہ سے محبت کرتا ہوں۔

امام جمعہ تاراگڑھ مولانا نقی مہدی زیدی نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کو "مجاہد فی سبیل اللہ" قرار دیتے ہوئے ان کی پیغمبر اکرم (ص) سے تین وصیتوں کا ذکر کیا کہ جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی بیماری بڑھ گئی تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "یا رسول اللّه! اِسمَع وصایای" یعنی "اے رسول خدا (ص)! "میری وصیتوں کو سن لیجئے!"أولا، فإنی قاصرةٌ فی حقِک، فاعفُنی ۔یا رسول اللّه: پہلی بات یہ کہ میں آپ کا حق ادا کرنے میں قاصر رہی ہوں؛ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے معاف فرمائیں!۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حاشا و کلا، ما رأیتُ منکِ تقصیرا فقد بلغتِ جهدکِ و تعبتِ فی ولدی غایةَ التعبِ، و لقد بذلتِ أموالَکِ و صرفتِ فی سبیل اللّه مالَکِ۔ ہرگز ایسا نہیں ہے، نه صرف یہ کہ میں نے آپ سے تمام رفاقت ازدواجی میں معمولی سے بھی کوتاہی و غلطی نہیں دیکھی بلکہ آپ نے بچوں کی تربیت و دیکھ بھال میں اپنی پوری کوشش کی ہے، اس راہ میں سختیوں کو تحمل کیا ہے اور آپ کے پاس جو بھی مال تھا آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: یا رسول اللّه! الوصیةُ الثانیةُ؛ أوصیکَ بهذه- أشارت إلى فاطمةَ علیها السّلام- فإنها یتیمةٌ غریبةٌ من بعدی فلا یۆذینها أحدٌ من نساءِ قریش و لا یلطمن خدَّها و لا یصحن فی وجهَها و لا یرینها مکروها۔میری دوسری وصیت یہ ہے کہ اور اسی وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی جانب اشارہ کیا، میری یہ بیٹی میری وفات کے بعد یتیم ، تنہا اور اکیلی ہو جائے گی،اس کا خیال رکھیئے گا کہ قریش کی عورتوں میں سے کوئی اسے تنگ نہ کرے، اسے تکلیف نہ دے اس پر ہاتھ نہ اٹھائے کوئی اس کے سامنے آواز بلند نہ کرے(چیخے چلائے نہیں) اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ناراض ہو!"و أما الوصیةُ الثالثةُ، فإنی أقولها لابنتى فاطمة علیها السّلام و هی تقول لک، فإنی مستحیةٌ منکَ یا رسول اللّه".اور میری تیسری وصیت یہ ہے کہ جسے میں اپنی نور نظر فاطمه علیہا السلام سے کہوں گی اور وہ آپ سے کہہ دے گی، اس لئے کہ مجھے آپ سے براہ راست کہتے ہوئے شرم محسوس ہو تی ہے۔ فقام النبی صلّى اللّه علیه و آله و خرج من الحجرة، فدعت بفاطمة علیها السّلام و قالت: یہ سننے کے بعدرسول خداﷺکھڑے ہو گئے اور حجرے سے باہر تشریف لے گئے. جناب خدیجه کبریٰ سلام اللہ علیہا نے حضرت فاطمه زهراء علیہاالسّلام کو اپنے نزدیک بلایا اور کہا: "یا حبیبتی! و قرة عینی، قولی لأبیک: إن أمی تقول: إنی خائفة من القبر، أرید منکَ رداءَکَ الذی تلبِسُه حین نزول الوحی؛ تکفننی فیه"۔ "اے عزیز دل من! اوراے میری قلب کی خوشی و راحت کے سامان! اپنے بابا سے کہو کہ میری ماں یہ کہہ رہی ہے :مجھے قبر سے خوف محسوس ہوتا ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے اس عباء کا کفن دیئے گا کہ جس میں آپ پر وحی نازل ہوئی تھی"۔حضرت فاطمه علیہا السّلام فوراً حجرے سے باہر تشریف لائیں اور اپنی والدہ حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا کا پیغام رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً اٹھے اور آپ نے اپنی عبائے مبارک حضرت فاطمه علیہاالسّلام کو دے دی. جب حضرت زہراء علیہاالسّلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ عبا ء حضرت خدیجه علیہاالسّلام کو دی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئیں!.جب حضرت خدیجه علیہاالسّلام کی رحلت ہو گئی تو رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بنفس نفیس آپ کو غسل دیا اور حنوط کیا۔ جب کفنانے کا وقت آیا تو حضرت جبرئیل امینؑ نازل ہوئے اورعرض کیا: "یا رسول اللہ خداوندنے آپ کو ہدیہ سلام بھیجا ہے اور نہایت خاص صورت میں تحیت و اکرام کیا ہے اورآپ سےفرماتا ہے: "إن کفن خدیجة من عندنا، فإنها بذلت مالها فی سبیلنا:" خدیجه سلام اللہ علیہا کا کفن ہمارے ذمہ ہےاس لئے کہ خدیجہ نے اپنی تمام تر ثروت کو ہماری راہ میں لٹا دیا؛ اس کے بعد حضرت جبرئیل نے وہ کفن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا اور کہا: "یا رسول اللّه! هذا کفن خدیجة و هو من أکفان الجنة، أهداه اللّه إلیها" "اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ کفن خدیجه الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنتی کپڑوں سے تیار کر کے انہیں ہدیہ کیا ہے!حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنی شریکہ حیات کو اپنی عبا کا کفن دیا اور اس کے بعد جنتی کپڑوں سے تیار کردہ کفن آپ کو دیا۔ یوں حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا دو کفنوں کے ساتھ سپرد خاک کی گئیں؛ ایک کفن از طرف خدا اور ایک از طرف رسول اللہ، یہ وہ اعزاز ہے جو امہات المؤمنین میں سے سوائے ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے انہوں نے کہا کہ جب تک حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت خدیجہ (س) با حیات تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مکہ میں رہے، اور جب ان دو شخصیات کی وفات ہوئی تو حضور اکرمؐ نے اس سال کا نام ’’عام الحزن‘‘ رکھ دیا، ان دونوں شخصیات کی وفات کے بعد رسول اللہ (ص) نے مکہ چھوڑ دیا۔ حضرت خدیجہؑ 65 سال کی عمر میں 10 رمضان المبارک کو مکہ شہر میں رحلت فرما گئیں اور آپ کو مکہ مکرمہ کے جنت المعلیٰ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha