حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یو پی شیعہ وقف بورڈ کے دو ممبروں کے انتتخاب میں گستاخ قرآن مجید وسیم کی کامیابی کے معاملے میں نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ تین ویڈیوز کے منظر عام پر آنے سے صورتحال اور ڈرامائی ہو گئی ہے۔ جو نئے پہلو ابھر کر آرہے ہیں ان سے معاملہ کا دوسرا ہی رخ سامنے آرہا ہے۔ جن سے یہ شک پختہ ہوتا ہیکہ کچھ ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے ووٹ تو وسیم کو دیا ہے لیکن خود کو اس فہرست میں شامل کئے ہوئے ہیں جنہوں نے مولانا کلب جواد کے پینل کو ووٹ دیا۔ اپنی کھال بچانے کے لئے انہوں نے ان متولیوں کو وسیم کا ووٹر قرار دلانے کی سازش رچی ہے جنہوں نے وسیم کو ووٹ نہیں دیا۔ اس سازش میں وہی افراد شامل ہو سکتے ہیں جنہوں نے یہ فہرست تیار کی کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ یہ پہلا ویڈیو بنارس کے وقف امام باڑہ کلاں کے متولی سجاد علی گجن کا ہے۔ سجاد علی کانام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے وسیم کو ووٹ دیا ہے۔۔ وسیم کو ووٹ دینے کے الزام میں سجاد علی پر لعن طعن کا سلسلہ جاری ہے۔ سجاد علی نے علم کے سائے میں قرآن مجید ہاتھ میں اٹھا کر بیان دیا ہیکہ انہوں نے گستاخ اسلام وسیم کو ووٹ نہیں دیا ہے۔
تیسرا ویڈیو فخری میرٹھی نے اپنے دفاع میں جاری کیا ہے۔۔ جنہوں نے مولانا کلب جواد، مولانا میثم زیدی اور مولانا شفق کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کو پش کرکے یہ بتایا ہیکہ کورونا کی ویکسین لینے کے بعد وہ اس حالت میں نہیں تھے کہ میرٹھ سے لکھنؤ تک کا سفر کرسکتے۔ مولانا کلب جواد نے انکو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ گاڑی کرایہ پر لیکر لکھنؤ آجائیں کرایہ کی ادائےگی کردی جائے گی۔ مولانا شفق اور مولانا کلب جواد کے اصرار پر ہی وہ لکھنؤ گئے اور مولانا کلب جواد کے پینل کے حق میں ووٹ دیکر فورن لکھنؤ سے میرٹھ کے لئے روانہ ہو گئے۔ فخری میرٹھی کو بھی وسیم کو ووٹ دینے والے اکیس متولیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جسکی وجہ سے شیعہ حلقے میں انکو بھی لعن طعن کا شکار بنایا جارہا ہے۔ ویڈیو طویل ہونے کی وجہ سے اسکو اپلوڈ نہیں کیا جارہا ہے ۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دستیاب ہے جسے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔
گتھی کیسےسلجھے گی
مولانا کلب جواد کے امیدوار ضیا مشرف کے حق میں جن متولیوں نے ووٹ دئے انکے نام یہ ہیں۔ مولانا کلب جواد متولی وقف غفراں مآب لکھنؤ، تقی مسجد الہ آباد کے مہدی رضا ، کربلا منشی فضل حسن اناؤ کے مشرف حسین رضوی ، امام باڑہ میر سعادت علی مراد آباد کے گلریز حیدر رضوی، میر نیاز علی وقف آگرہ کے ظفر رضوی اور مقبرہ بہو بیگم صاحبہ فیض آباد کے اشفاق حسین عرف ضیا۔۔ان متولیوں کی تلاش ضروری ہے جنہوں نے ووٹ تو وسیم کو دیا ہے لیکن اپنی کھال بچانے کے لئے دوسروں کو بلی کا بکرا بنا یا ہے۔ اس بات کی جانچ ہونی چاہئے کہ کن افراد نے یہ فہرست تیار کی کہ فلاں فلاں فلاں نے ووٹ فلاں فلاں فلاں کو دیا ہے۔ یہ فہرست آخر کس حقیقت کی بنیاد پر تیار کی گئی۔ اس میں غور کرنے والی بات یہ ہیکہ کہ جیسا کہ تینوں متولی دعویٰ کررہے ہیں اگر سجاد علی، اعجاز علی اور فخری میرٹھی کے ووٹ وسیم کو نہیں گئے تو مولانا کلب جواد کے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد 9 ہونی چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ گھپلا یہیں لگتا ہے۔
راز کیسے فاش ہوگا۔؟
حقیقت تک پہونچنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم کام تو یہ ہونا چاہئے کہ تمام بیلٹ پیپر عام کرائے جائیں۔۔ تاکہ یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ وسیم کا ساتھ دینے والے اصل گنہگار کون ہیں۔ گستاخ قران مجید کی حمایت کرکے لعن طعن کے اصل مستحق کون ہیں۔ حالانکہ یہ کام مشکل ہے لیکن بعض خصوصی حالات میں یہ ناگزیر ہے جیسا کہ موجودہ حالات ہیں ۔ مولانا کلب جواد کو اس سلسلے میں پیش قدمی کرنی چاہئے۔ انہیں وقف بورڈ اور متعلقہ وزیر سے بیلٹ پیپر عا م کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ وسیم تو اس کام میں اڑنگا لگائے گا نہیں کیونکہ اسکے اکیس ووٹ کہیں کھسکنے والے نہیں ہیں۔۔ نقابیں تو ان لوگوں کے چہروں سے اتریں گی جنہوں نے وسیم کو ووٹ دیا لیکن مولانا کلب جواد کے امیدوار کو ووٹ دینے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
حقیقت تک پہونچنے کا دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہےکہ جن متولیوں پر شک ہیکہ انہوں نے وسیم کا ساتھ دیا ان سے عزاخانوں میں علم کے سائے میں قرآن کا حلفیہ بیان دینے کو کہا جائے۔ اس عمل میں مولانا کلب جواد کے امیدوار کو ووٹ دینے کا دعویٰ کرنے والے تمام متولیوں کو بھی شامل کیا جائے البتہ مولانا کلب جواد کو بھلے ہی اس سے الگ رکھا جائے۔ اس اسٹوری کا اصل مقصد حقیقت کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کرنا ہے۔ ہم کسی گستاخ قرآن اور گستاخ آئمہ معصومین کی کسی بھی قیمت پر حمایت نہیں کرسکتے۔اور نہ ہی گستاخ قرآن کریم کے کسی حامی کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہیکہ وسیم کے ہر حامی کے چہرے کو بے نقاب کیا جائے۔ اسکا سماجی بائکاٹ کیا جائے ۔ اسے تشیع سے باہر کیا جائے۔ اس میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہ لیا جائے۔