۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایرانی قوم اور امت مسلمہ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کیا۔1 مارچ 2022 کے اپنے اس خطاب میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ یوکرین امریکا کی بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو جدید جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک جاہلیت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایرانی قوم اور امت مسلمہ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کیا۔1 مارچ 2022 کے اپنے اس خطاب میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ یوکرین امریکا کی بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو جدید جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک جاہلیت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

بعثت، پیغمبر اور بنی نوع انسان کو خداوند عالم کا سب سے بڑا تحفہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کی با برکت اور بڑی عظیم عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں عظیم امت اسلامی اور ایران کی عزیز قوم اور دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں کو۔ مبعث کا دن اور مبعث کی رات، وہ دن اور وہ رات ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو، جو خداوند عالم کے سب سے عظیم بندے ہیں، عالم وجود کا سب سے بڑا تحفہ عطا کیا گيا، جسے مبعث کی شب کی دعا میں "بالتجلی الاعظم"(1) سے تعبیر کیا گيا ہے۔

عقل پسندی کا فروغ اور اخلاقیات کی پرورش؛ اسلامی اقدار کے نمایاں پہلو

البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت، پوری انسانیت کے لیے بھی تحفہ ہے۔ اگر ہم، اسلام کے متعدد اقدار، اسلامی اقدار کے سلسلے میں سے، اسلامی اقدار کی فہرست بہت لمبی چوڑی ہے، اگر صرف دو اقدار کو مد نظر رکھیں، یعنی عقلانیت یا عقل پسندی کا فروغ اور اخلاقیات کی پرورش، جو ان اقدار میں کافی نمایاں ہیں اور اسلام نے ان کے سلسلے میں کافی تاکید کی ہے، تو ہم اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اسلام نے سعادت و کامرانی کا سب سے اعلی وسیلہ، انسانیت کو عطا کیا ہے۔

یہ جو اسلام عقلانیت اور معقولیت کی ترویج کی دعوت دیتا ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ قرآن مجید میں دسیوں جگہیں اور اگر کوئي گنے تو شاید قریب سو جگہیں ایسی ہیں جہاں خداوند متعال نے مختلف الفاظ کے ذریعے، کبھی 'تعقلون' کبھی 'تتفکرون' کبھی 'اولی الالباب' اور کبھی 'یتدبرون' کے لفظ سے مخاطبین اور تمام لوگوں کو غور و فکر، سوچنے سمجھنے اور عقل سے کام لینے کی دعوت دی ہے۔

اخلاقی تعلیمات کے فروغ اور اخلاقیات کی پرورش کے بارے میں اتنا جان لینا ہی کافی ہوگا کہ قرآن مجید میں کئي جگہ، بعثت کے اہداف میں سب سے پہلے اخلاق اور تزکیۂ نفس کا ذکر کیا گيا ہے۔ ھُوَ الَّذی بَعَثَ فِی الاُمِّيّينَ رَسولاً مِنھُم يَتلوا عَلَيہِم آياتِہِ وَ يُزَكّيھِم(2)؛ پہلے تزکیہ ہے؛ اسی طرح دوسری آیتوں میں: لَقَد مَنَّ اللَّہُ عَلَى المُؤمِنينَ اِذ بَعَثَ فيھِم رَسولاً مِن اَنفُسِھِم يَتلوا عَلَيھِم آياتِہِ وَ يُزَکّيھِم.(3) قرآن میں کئي اور جگہیں ہیں جہاں تزکیے کو بعثت کا ہدف و غایت، مقرر کیا گيا ہے؛ بعثت کے اہداف میں سر فہرست تزکیہ ہے۔

بنابریں اسلام نے انسانیت کو ان دو اعلی اور بے نظیر اقدار کا تحفہ پیش کیا ہے اور اپنے ماننے والوں اور اسی کے ساتھ تمام انسانوں کو عقل سے کام لینے، غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے اور یہ وہ سب سے بڑا تحفہ ہے جو اسلام، انسانیت کو عطا کر سکتا ہے اور اس نے عطا کیا ہے۔

بعثت کے نتائج اور سبق؛ ناممکن کاموں کی انجام دہی

بعثت کے سلسلے میں اختصار سے کچھ نکات بیان کرنا چاہتا ہوں اور بعد میں حالات حاضرہ کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ بعثت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت نے اس چیز کو عملی جامہ پہنایا جو ناممکن نظر آ رہی تھی، محال لگ رہی تھی، وہ کیا چیز تھی؟ وہ یہ تھی کہ اس نے جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگوں کو، میں ابھی یہ عرض کروں گا کہ ان کی خصوصیات کیا تھیں، امت اسلامی جیسی ایک بافضیلت قوم میں تبدیل کر دیا اور وہ بھی خود پیغمبر کے زمانے میں؛ یہ چیز عام نظروں سے ناممکن دکھائي دیتی ہے؛ جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگ، بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے کچھ خصوصیات کے حامل تھے جن میں سے بعض کا ذکر نہج البلاغہ میں ہے اور بعض کا تاریخ میں ہے؛ گمراہ، سرگرداں، بے ہدف، بری طرح جہالت میں مبتلا، بڑے بڑے فتنوں میں مبتلا، تعصیب اور بڑی جہالتوں کی وجہ سے شروع ہونے والے فتنے، ان ساری صفات کے علاوہ لاعلمی، معرفت کا فقدان، ذرہ برابر بھی اخلاق کا نہ ہونا، کسی ہدف کا نہ ہونا اور اس کے باوجود بری طرح سے گھمنڈی، بہت زیادہ تشدد پسند، حق کو تسلیم نہ کرنے والے، اڑیل اور ہٹ دھرم، یہ جزیرۃ العرب، مکے اور اس وقت موجود دوسروں جگہوں کے لوگوں کی صفات تھیں۔ ان کے بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک اور سرداروں سے لے کر ماتحتوں تک میں یہ باتیں پائي جاتی تھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختصر سی مدت میں انہی لوگوں کو ایسی قوم میں بدل دیا جو پوری طرح سے متحد تھی۔ آپ پیغمبر کے زمانے کے مسلمانوں کو دیکھیے، چاہے اس وقت کے ہوں جب وہ مدینے تک محدود تھے اور چاہے اس وقت کے ہوں جب مکے، طائف اور بعض دوسری جگہوں تک پھیل گئے تھے، متحد، با‌فضیلت، عفو و درگزر سے کام لینے والی، قربانی دینے والی اور اعلی ترین فضائل کی حامل، ایک ایسی قوم میں بدل گئے تھے، پیغمبر نے انہی لوگوں کو، اس طرح کے انسانوں میں بدل دیا؛ یہ بظاہر ناممکن تھا، یہ چیز کسی بھی حساب کتاب سے ممکن نہیں لگتی تھی کہ ایک مختصر سی مدت میں اس طرح کی اخلاقی عادتوں اور خصوصیات کے حامل یہی لوگ، جب اسلام قبول کر لیتے ہیں تو بیس سال سے بھی کم عرصے میں ان کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگتا ہے، انھوں نے اپنے مشرق کی طرف سے، اپنے مغرب کی طرف سے، اپنی سوچ کو، اپنے نظریے کو اور اپنی عظمت کو پھیلا دیا، آج کل کی اصطلاح میں ہارڈ ویئر کے پہلو سے بھی اور سافٹ ویئر کے زاویے سے بھی اسے فروغ دیا۔ یہ وہ کام تھا جو اسلام نے انجام دیا اور واقعی یہ ایک ناممکن کام تھا، ناممکن دکھائي دے رہا تھا لیکن اسلام نے اسے کر دکھایا؛ بعثت نے اسے عملی جامہ پہنا دیا۔

تو یہ وہ واقعہ ہے جو تاریخ میں رونما ہوا لیکن ہم آج اس واقعے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس معنی میں کہ یہ پوری تاريخ میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک بشارت ہے کہ جب بھی لوگ، اللہ کے ارادے کی سمت میں، اس کی راہ میں آ جائيں اور الہی ارادے کے تابع ہو جائيں تو وہ ایسے ایسے کام انجام دے سکتے ہیں جو ناممکن دکھائي دیتے ہیں، ایسے اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نظروں سے اور معمولی اندازوں سے انسان کی دسترس سے باہر معلوم پڑتے ہیں، ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ پوری تاریخ میں یہ نبوی تجربہ دوہرائے جانے کے لائق ہے؛ اگر انسان، اس سمت میں آ جائیں تو وہ ایسے اعلی اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نگاہوں سے اور عام اندازوں سے ناممکن نظر آتے ہیں۔

بعثت کی راہ میں آگے بڑھنے کا ایک کامیاب تجربہ

یہ تجربہ کچھ فرق کے ساتھ ایرانی قوم کے ساتھ بھی ہوا ہے اور خداود عالم نے اپنے فضل و کرم سے ایرانی قوم کو یہ تجربہ عطا کیا، اس تجربے کی توفیق خداوند عالم نے ایرانی قوم کو عطا کی۔ یہ تجربہ، اس ملک سے سلطنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تھا، یہ ملک جو پوری طرح سے شہنشاہی تھا، یہاں ظالم و جابر سلطنت تھی، مادی طاقتوں پر بھروسہ کرنے والی، معنویت سے کوسوں دور، بڑا طویل تاریخی ماضی رکھنے والی تھی، یہ واقعہ یہاں اس ملک میں رونما ہوا، جبکہ ملک میں اس سلطنتی حکومت کا پشت پناہ امریکا بھی تھا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی تھیں: امریکا بھی، برطانیہ بھی، آخر آخر میں سابق سوویت یونین بھی؛ سبھی پہلوی حکومت کی حمایت اور مدد کر رہے تھے لیکن ایرانی قوم نے، اس حکومت کی بیخ کنی کرنے میں، جو بظاہر ناممکن نظر آ رہی تھی، کامیابی حاصل کی، اس کام کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مخلصانہ قیادت، عوام کے بلند حوصلوں اور ان کی قربانیوں کی برکت سے عملی جامہ پہنایا گیا۔ ہم لوگ میدان میں تھے، ہر بات سے واقف تھے۔ اگر اس دن ہم میں سے کسی سے بھی یہ کہا جاتا کہ ممکن ہے کہ ایسا واقعہ ہو جائے تو ہمارے لیے اس پر یقین کرنا بہت مشکل تھا، لیکن ویسا ہی ہوا اور اس انقلاب نے قوم کو جمود سے باہر نکال دیا، قوم میں حرکت پیدا کر دی، اس میں جوش بھر دیا۔ اس انقلاب نے نہ صرف یہ کہ دنیا کے سامنے اپنی عظمت کو نمایاں کیا بلکہ ایرانی قوم کو باعظمت بنا دیا، اسلامی ایران کو بھی دنیا کی نظروں میں عظمت بخش دی۔ یہ پہلا نکتہ کہ اگر ہم بعثت کی راہ میں آگے بڑھیں تو ناممکن کاموں کو ممکن بنا دیں گے اور ان اہداف کو حاصل کر لیں گے جو ناقابل حصول نظر آتے ہیں۔

حکومت کی تشکیل؛ نبوی تحریک کا عروج

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے سلسلے میں اگلا نکتہ یہ ہے کہ ان افراد کے نظریے کے برخلاف، جو دین کو سیاست سے الگ بتاتے ہیں، دین کو زندگي، سیاست اور حکومت سے پوری طرح الگ بتاتے ہیں، مختلف طرح کے گروہ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، پہلے بھی کام کر رہے تھے مگر انقلابی تحریک کی فتح کے ساتھ ہی یہ کوشش ناکام ہو گئی لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے تحریروں اور گفتگو میں دوبارہ یہ سرگوشیاں شروع کر دی ہیں، تو ان لوگوں کے نظریے کے برخلاف، نبوی تحریک کا نقطۂ عروج، حکومت کا قیام تھا۔ اس کے لیے تمہیدی اقدامات اور راہ ہموار کرنے کا کام خود پیغمبر اکرم نے کیا، مدینے کی سربرآوردہ شخصیات نے جب اسلام کے بارے میں سنا اور یہ دیکھنے کے لیے آئے کہ معاملہ کیا ہے؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بات کی، کچھ باتیں طے کیں، سمجھوتا کیا اور یثرب کے سرداروں کے ساتھ مل کر، اس وقت تک اس شہر کا نام مدینہ نہیں پڑا تھا بلکہ یثرب تھا، راہ ہموار کی۔ اس کے بعد نبی اکرم نے، اس عجیب صورتحال میں اپنی ہجرت شروع کی، پھر مسلمانوں کی ہجرت شروع ہوئي، تدریجی طور پر مہاجرین مدینے آئے۔ ہجرت سے پہلے پیغمبر نے اپنا نمائندہ یثرب بھیجا۔ مصعب ابن عمیر کو اپنے نمائندے کے طور پر وہاں بھیجا کہ وہاں جا کر لوگوں کے سامنے قرآنی آيات کی تلاوت کریں؛ انھوں نے یہ تمہیدی اقدام کیے، اس کے بعد خود آنحضرت نے یثرب کی طرف ہجرت کی اور وہاں اسلامی حکومت تشکیل دی؛ یہ ان کی تحریک کا نقطۂ کمال تھا۔ انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کی کہ ایک حکومت قائم کریں اور صرف لوگوں کے امور کی نگرانی کریں، نہیں! انھوں نے دشمنوں کا چوطرفہ مقابلہ شروع کیا۔ کیونکہ دشمن، مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ انھوں نے لشکر تیار کیا، آلات حرب مہیا کیے اور دشمنوں پر حملہ کر دیا۔ کبھی دفاع کیا تو کبھی حملہ کیا۔ دونوں چیزیں ہیں۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر کی جنگیں صرف دفاعی تھیں، یہ صحیح نہیں ہے، ان میں سے بعض دفاعی جنگیں تھیں اور بعض حملے تھے۔ حالات مختلف تھے۔ اس کے بعد انھوں نے شرک کے اڈے کو فتح کیا۔ شرک کا مرکز مکہ تھا، اسے فتح کیا اور بیت اللہ، اسلام اور مسلمانوں کے اختیار میں آ گيا۔ آپ نے اسلامی حکومت کو مزید مستحکم کیا۔ یہ اسلامی تحریک کا سب سے ولولہ انگیز باب ہے۔ کس طرح وہ لوگ جو اس طرح کی کوشش کرتے ہیں، اسلام کو، دین کو حکومت سے الگ کرنا چاہتے ہیں؟

جاہلیت سے پیغمبر کی جنگ

بعثت کے سلسلے میں اگلا نکتہ یہ ہے کہ بعثت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک سب سے اہم نعرہ اور موقف، جاہلیت کے خلاف پیکار تھا۔ قرآن مجید میں بارہا جاہلیت کی مذمت کی گئي ہے۔ لفظ 'جاہلیت' کی مذمت کی گئي ہے اور میں ابھی وضاحت کروں گا کہ جاہلیت سے مراد کیا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے: اَفَحُکمَ الجاھِلیَّۃِ یَبغون(4)؛ سورۂ احزاب میں ہے: وَ لاتَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجاھِلَیَّۃ الاولیٰ(5)؛ سورۂ انّا فتحنا میں ہے: اِذ جَعَلَ الّذینَ کَفَروا فی قُلوبِھِمُ الحَمیَّۃَ حَمیَّۃَ الجاھِلیَّۃ(6) اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں کئي مقامات پر جاہلیت کا ذکر ہے، میرے ذہن میں یہ تین آیتیں تھیں جنھیں میں نے یہاں نوٹ کیا۔ جاہلیت کی برائي کی گئي ہے، تو یہ جاہلیت ہے کیا؟ جاہلیت سے مراد، صرف ناخواندگي نہیں ہے۔ البتہ اس میں ناخواندگي بھی شامل ہے لیکن اس جاہلیت کا مفہوم زیادہ وسیع ہے۔ اس میں پست صفات بھی شامل ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا۔ لوگوں کی درندگي اور ان کا وحشیانہ رویہ: قتل و غارتگری، جارحیت، حق کی مخالفت، کمزوروں پر ظلم یہ ساری چیزیں جزیرۃ العرب کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں، یہ ساری چیزیں اس جاہلیت کا حصہ ہیں۔ جنسی بے راہ روی، اخلاقی پستی، لوگوں کے درمیان سے شرم و حیا کا اٹھ جانا، یہ ساری چیزیں تھیں، یہ اس جاہلیت کا جز تھیں۔ بعثت نے ان سب سے مقابلہ کیا۔ سورۂ احزاب میں رسول خدا کی بیویوں سے خطاب کرتے ہوئے وَ لاتَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجاھِلَیَّۃ الاولیٰ کی آیت میں جس جاہلیت کی بات کی گئي ہے وہ اس طرح کی ایک چیز ہے؛ اس میں نادانی، ناخواندگي اور جہالت بھی ہے، بداخلاقی، ظلم، امتیازی سلوک، حق کی مخالفت اور کمزوروں پر ظلم بھی ہے اور جنسی بے راہ روی، اخلاقی پستی اور عریانیت بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں جاہلیت میں شامل ہیں۔ تو پیغمبر نے جاہلیت سے مقابلہ کیا۔

مغرب کی ماڈرن جاہلیت میں طرح طرح کی اخلاقی پستیوں کا رواج اور ان کا جواز تراشنے کی کوشش

اب اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ بہت سی اخلاقی پستیاں جو اس وقت مکے میں رائج تھیں، جزیرۃ العرب میں رائج تھیں اور پیغمبر نے ان سے مقابلہ کیا تھا، ان میں سے بہت سی اخلاق سے عاری باتیں آج، نام نہاد تہذیب یافتہ مغربی دنیا میں بڑی منظم شکل میں اور زیادہ شدت کے ساتھ، زیادہ وسعت کے ساتھ پائي جاتی ہیں۔ بالکل وہی اخلاقی پستیاں ایک زیادہ وسیع پیمانے پر موجود ہیں، زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ۔

آج مغربی تمدن میں زندگی لالچ اور حرص کی بنیاد پر ہے، طمع کی بنیاد پر ہے، بلکہ مغربی تمدن میں زندگي کی بنیاد ہی حرص و طمع ہے۔ آج مغرب کے تمام اقدار کی بنیاد پیسہ ہے، ہر چیز کو پیسے سے تولا جاتا ہے؛ اخلاقیات، روحانیت، ہر چیز کو پیسے سے تولا جاتا ہے، ان کے معیارات یہ ہیں۔ رائج سیاست، حکمرانی، سب امتیازی سلوک کی خدمت میں ہیں، کمپنیوں اور کارٹلز کو مزید بڑھانے میں مصروف ہیں؛ آج یہی ہو رہا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی، لوگوں کے قتل عام کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کبھی سائنس کو مثال کے طور پر کچھ لوگوں کی زندگیاں بچانے والی ویکسین یا کوئی دوا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کبھی اسی سائنس کو عام تباہی کے ہتھیار، کیمیائي ہتھیار اور ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اس سے سیکڑوں گنا زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، ختم کر دیتے ہیں۔ یہ چیز دنیا میں ہو چکی ہے اور اس وقت بھی ہو رہی ہے۔ کمزور ملکوں کو لوٹنا، اخلاقی پستی اور جنسی بے راہ روی بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ہم جنس پرستی وغیرہ جیسی باتیں جو واقعی شرمناک ہیں اور انھیں کہنے اور زبان پر لانے میں بھی انسان کو شرم آتی ہے، عجیب و غریب جنسی بے راہ روی، یہ ساری برائیاں آج دنیا میں موجود ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں جو اس وقت تھی، آج بھی وہی ہیں، فرق یہ ہے کہ اس وقت محدود تھیں، آج پھیل چکی ہیں، منظم ہو چکی ہیں۔ ان میں سے بہت سی اخلاقی برائيوں کے پیچھے، غلط جواز تیار کیا گيا ہے، یعنی ان کاموں کے لیے منطقی اور فکری جواز تیار کرنے کی کوشش کی گئي ہے، اس کے لیے فکری بنیاد تیار کر رہے ہیں اور انسانیت کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

بنابریں یہ جاہلیت، آج اور اس وقت بھی ہے۔ تو اگر کوئي آج کے مغربی تمدن کو 'ماڈرن جاہلیت' کہے، جیسا کہ کہا گيا، بہت سے لوگوں نے جدید جاہلیت کہا ہے، تو وہ حق بجانب ہے۔ واقعی، جاہلیت وہی جاہلیت ہے بس آج کی دنیا میں وہ اپنے آپ کو نئي اور ماڈرن شکل میں پیش کر رہی ہے۔

ماڈرن جاہلیت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں

تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں بعثت سے ملنے والے دروس پر نظر ڈالنی چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جاہلیت کے مقابلے میں جو کام کیا تھا، ہماری ذمہ داری ہے کہ وہی کام آج اس جاہلیت کے سلسلے میں ہم انجام دیں؛ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔

پہلے مرحلے میں، ایمان کی تقویت۔ ہمارے اور پوری دنیا میں انسانیت کا درد رکھنے والے سبھی لوگوں کے لیے ایک اہم کام، دینی عقیدہ و ایمان کو مضبوط بنانا ہے۔ پوری دنیا میں مومن اور استقامت کی راہ پر چلنے والے گروہوں کی تعداد بڑھانا؛ ایسے انسان جن میں دینی محرکات پائے جاتے ہوں، جو باایمان ہوں، استقامت کرنے والے ہوں، کام کرنے والے ہوں، کوشش کرنے والے ہوں، ان کی تعداد بڑھائي جانی چاہیے۔ پھر اسلامی نظام کی طاقت و استحکام کی تقویت۔ خدا کے فضل و کرم سے اسلام کے پرچم کے ساتھ اور اسلام کے پرچم تلے اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک نظام تشکیل پا چکا ہے؛ ہمیں اس کی تقویت کرنی چاہیے، اسے مضبوط بنانا چاہیے، اس کی بنیادوں کو جہاں تک ممکن ہو، مستحکم کرنا چاہیے، اس کے ثمرات اور اثرات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔

اس کے بعد عاقلانہ اور حکیمانہ پروگرام؛ یہ ان میدانوں میں سے نہیں ہے کہ انسان آنکھ بند کرے اور حملہ کر دے۔ اس کے لیے پروگرام تیار کرنا ضروری ہے، مطالعہ کرنا ضروری ہے، عاقلانہ منصوبے تیار ہونے چاہیے، دانشمندی کے ساتھ اس معاملے کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہ پروگرام، اس جاہلیت کی تمام تر خصوصیات کی وسیع شناخت کے سہارے انجام پانا چاہیے؛ اگر ہم اس جاہلیت کی خصوصیات کو صحیح طریقے سے نہیں جانیں گے تو اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے، اس سے لڑ نہیں سکیں گے۔

دنیا کے عوام کے لیے اسلامی انقلاب کی جاذبیت اور کشش

البتہ ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ ان بڑے کاموں میں ہم اپنی منزل مقصود اور اہداف تک پہنچ گئے ہیں۔ نہیں، ان تمام بڑے میدانوں میں ہم ابھی آدھے راستے میں ہیں۔ اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ البتہ کام ہوئے ہیں، بحمد اللہ ہم آگے بڑھے ہیں لیکن ان سب میں ہم ابھی آدھے راستے میں ہیں، منزل سے کافی دور ہیں لیکن اس کے باوجود کہ ہم ہدف سے کافی دور ہیں، حالانکہ ابھی ہم آدھے راستے میں ہیں اور منزل کافی دور ہے لیکن پھر بھی اسلامی انقلاب کا ماڈل اور اسلامی جمہوریہ کا ماڈل دنیا کے لوگوں کے لیے، کم سے کم دنیا کے مسلمانوں کے لیے، ایک پرکشش ماڈل ہے۔ آپ دیکھیے کہ تہران سے کئي ہزار کلو میٹر دور کسی ملک میں شہید کی تصویر، ہمارے عزیز شہید قاسم سلیمانی کی تصویر کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو لوگ ایسا ردعمل دکھاتے ہیں کہ وہ پولیس والا، جس نے اہانت کی ہے، وہ خود آ کر معافی مانگنے پر اور اس تصویر کو شہر میں مختلف جگہوں پر دوبارہ لگانے کا لوگوں کا مطالبہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے؛ یہ آئيڈیل، ایک پرکشش آئيڈیل ہے، اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ماڈل، پرکشش ماڈل ہے، یہ ادھورا ہو تب بھی پرکشش ہے، دلچسپ ہے، جاذب نظر ہے۔ اگر ہم راستے کو اچھی طرح سے طے کرتے رہے، مشن کو صحیح طریقے سے آگے بڑھاتے رہے، تو دنیا میں ایک انتہائي پرکشش اور ترقی پذیر ماڈل وجود میں آ جائے گا اور اقوام اس کی جانب فطری طور پر مائل ہوں گي۔

امریکا کی بحران ساز اور بحران کے سہارے زندہ رہنے والی حکومت؛ ماڈرن جاہلیت کا مکمل نمونہ

ہم اس طرح کی جاہلیت کے مقابلے پر ہیں۔ البتہ یہ ماڈرن جاہلیت ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ میرے خیال میں ماڈرن جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ امریکا ہے؛ یہ جاہلیت پوری دنیا کے ہر حصے کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک ہے، یہ حقیقت ہے۔ امریکا ایک ایسی حکومت ہے جس میں بے راہ روی اور ناپسندیدہ اخلاقیات کی ترویج کی جاتی ہے۔ وہاں امتیازی سلوک روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ قومی سرمایہ روز بروز دولتمندوں اور آسودہ لوگوں کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔ امریکا جیسے امیر ملک کی حالت یہ ہے کہ اگر سردی ذرا سی بڑھ جاتی ہے تو کچھ لوگ سڑکوں پر مر جاتے ہیں۔ جب گرمی بڑھ جاتی ہے تب بھی کچھ لوگ سڑکوں پر مر جاتے ہیں؛ کیوں؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ آج دنیا میں جدید جاہلیت کا مظہر، امتیازی سلوک کا مظہر، ظلم کا مظہر اور بحران سازی کا مظہر، امریکا ہے۔ بنیادی طور پر امریکی حکومت، ایک بحران پیدا کرنے والی اور بحران کے سائے میں زندہ رہنے والی حکومت ہے، بحران ہی اس کی خوراک ہے؛ وہ دنیا کے گوشہ و کنار میں مختلف طرح کے بحرانوں سے اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ وہاں اس طرح کا ماحول ہے۔

امریکی حکومت کی پالیسی سازی اور امور کا کنٹرول مافیائي نیٹ ورک کے ہاتھ میں

امریکا کے اندر طاقت کے مافیائي چینل، پوری دنیا میں رونما ہونے والے بحرانوں پر ہی پل رہے ہیں۔ بنیادی طور پر امریکا، ایک مافیائي حکومت ہے؛ سیاسی مافیا، معاشی مافیا، اسلحہ سازی کا مافیا، طرح طرح کے مافیا جن کے ہاتھ میں اس ملک کی پالیسیاں ہیں اور وہی ان پالیسیوں کی گائیڈ لائن طے کرتے ہیں۔ ملک کا کنٹرول درحقیقت انہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حکومت کی پشت پر رہ کر کچھ لوگوں کو بر سر اقتدار لاتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہٹا دیتے ہیں۔ یہی مافیا، امریکی سربراہان مملکت کو بر سر اقتدار لاتے ہیں۔ تو ان مافیاؤں کو، اس مافیائي حکومت کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں کچھ جگہوں پر بحران ہو، اسی لیے وہ بحران کے مراکز تیار کرتی ہے۔ مغربی ایشیا کے علاقے میں آپ دیکھیے کہ انھوں نے کتنا بڑا بحران پیدا کیا ہے؟! انھیں ضرورت پڑ گئي کہ داعش جیسی شئے کو پیدا کریں جو ان کا تربیت یافتہ کتا تھا۔ کھلم کھلا، سب کے سامنے، آشکارا طور پر، کیمرہ ریکارڈنگ کے ساتھ لوگوں کے سر قلم کریں، زندہ جلا دیں یا پانی میں ڈبا دیں اور اس کی ویڈیو دنیا کو دکھائيں! اسے امریکا نے وجود بخشا تھا، خود امریکیوں نے اعتراف کیا ہے، خود انھوں نے کہا ہے کہ اسے انھوں نے جنم دیا ہے۔ یہ بحران پیدا کرنے والے ہیں۔ اگر وہ بحران نہیں پیدا کر سکے تو اسلحے بنانے کے کارخانے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، اس لیے دنیا میں بحران پیدا کرنا ہوگا تاکہ ان مافیاؤں کے زیادہ سے زیادہ مفادات پورے ہو سکیں۔

یوکرین؛ امریکا کی بحران ساز پالیسیوں کی قربانی

آج میرے خیال میں، یوکرین بھی اسی پالیسی کی بھینٹ چڑھا ہے۔ آج یوکرین کے حالات، امریکا کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ امریکا نے ہی یوکرین کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ اس ملک کے داخلی مسائل میں امریکا کی مداخلت، حکومتوں کے خلاف اجتماعات، رنگین انقلابات کو وجود میں لانا، طرح طرح کی بغاوتیں کروانا، حکومت مخالفین کے اجتماعات میں امریکی سنیٹروں کی شرکت، ایک حکومت کو ہٹانا، دوسری حکومت بنوانا، ان ساری چیزوں کا فطری نتیجہ یہی ہے۔

اسلامی جمہوریہ جنگ اور تخریب کاری کے مخالف

البتہ ہم جنگ اور تخریب کاری کے مخالف ہیں؛ دنیا میں کہیں بھی ہو۔ یہ ہمارا اٹل موقف ہے۔ ہم، لوگوں کو قتل کرنے، اقوام کے بنیادی انفراسٹرکچر کے انہدام کے مخالف ہیں، اس کی حمایت نہیں کرتے، چاہے دنیا میں کہیں بھی ہو، یہ ہمارا مستقل موقف ہے۔ ہم مغرب والوں کی طرح نہیں ہیں کہ اگر افغانستان میں، کسی بارات پر بم گرا دیا جائے اور ان کی شادی کو سوگ میں بدل دیا جائے تو یہ، دہشت گردی سے جنگ ہے! یہ جرم نہیں ہے! ان کی منطق اسی طرح کی ہے نا۔ افغانستان میں، عراق میں۔ امریکا، مشرقی شام میں کیا کر رہا ہے؟ وہ لوگ شام کا تیل کیوں چرا رہے ہیں؟ افغانستان کا پیسہ کیوں چرا رہے ہیں؟ افغانستان کی قومی ثروت کیوں لوٹ رہے ہیں؟ مغربی ایشیا کے علاقے میں صیہونیوں کے جرائم کا، جو دن رات جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، بچاؤ کر رہے ہیں؟ یہ بحران پیدا کرنا ہے، یہ وہ کام ہیں جو وہ لوگ انجام دیتے ہیں، ان کاموں کو انسانی حقوق کے دفاع وغیرہ کے نام پر انجام دے رہے ہیں۔ ہم ان کی طرح نہیں ہیں۔ اگر کوئي کام کسی جگہ پر ہو، جو ہمارا خاص علاقہ ہے تو ہم اس کام کے بارے میں کچھ اور فیصلہ کریں اور اگر وہی کام کہیں اور ہو تو ہم اس کے بارے میں کوئی اور رائے قائم کریں۔ آٹھ سال سے یمن کے عوام پر مسلسل بمباری ہو رہی ہے، مغرب والے اس کی مذمت نہیں کرتے، بلکہ حمایت بھی کرتے ہیں، زبانی، تشہیراتی اور میڈیا کے ذریعے کی جانے والی حمایت بھی اور عملی حمایت بھی۔ یہ لوگ اس طرح کے ہیں۔ ہم یوکرین میں جنگ روکے جانے کے حامی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں جنگ ختم ہو لیکن ہر بحران کا علاج صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب بحران کی جڑ کو پہچانا جائے۔ یوکرین میں بحران کی جڑ، امریکا کی پالیسیاں ہیں، مغرب والوں کی پالیسیاں ہیں، انھیں پہچانا جانا چاہیے، اس بنیاد پر فیصلہ کیا جانا چاہیے اور اگر اقدام ممکن ہو تو اقدام کرنا چاہیے۔

یوکرین جنگ کی عبرتیں:

(1) امریکا اور مغربی ممالک نا قابل اعتبار

اب جب یوکرین کی بات آ گئي ہے تو یوکرین کے اس مسئلے میں کچھ عبرتیں ہیں جن کا انسان مشاہدہ کرتا ہے۔ مبصرین اور مصنفین کی گفتار اور تحریر میں، ان میں سے بعض عبرتوں کی طرف اشارہ کیا گيا ہے؛ میں ان میں سے دو عبرتوں کی طرف اشارہ کروں گا۔ ایک یہ کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے ان ملکوں کی حمایت، جو ان کے پٹھو ہیں اور ان حکومتوں کی مدد جو ان کی پٹھو ہیں، ایک سراب ہے، اس کا حقیقت سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ اسے ساری حکومتوں کو جان لینا چاہیے! ان حکومتوں کو جو امریکا اور یورپ کی مدد پر بھروسہ کر کے اپنے آپ کو طاقتور سمجھتی ہیں، انھیں یوکرین کی آج کی اور افغانستان کی کل کی حالت دیکھنی چاہیے! یوکرین کے صدر نے بھی ابھی کچھ ہی دن پہلے کہا تھا اور افغانستان کے مفرور صدر نے بھی کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ہم نے امریکا پر بھروسہ کیا، مغربی حکومتوں پر اعتماد کیا مگر انھوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پہلی عبرت تھی۔ اسلامی جمہوریہ کی عزت و خود مختاری کا ڈنکا تو خیر پوری دنیا میں بج رہا ہے لیکن جو لوگ امریکا پر تکیہ کیے ہوئے ہیں، وہ اس عبرت پر توجہ کریں اور اسے سمجھیں۔ یہ ایک عبرت۔

(2) عوام؛ حکومتوں کا سب سے بڑا سہارا

دوسری عبرت یہ ہے کہ عوام، ملکوں کی خودمختاری کے سب سے بڑے پشت پناہ ہیں، اگر عوام میدان میں آ جاتے تو اس وقت یوکرین کی حکومت اور عوام کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔ لوگ میدان میں نہیں اترے کیونکہ وہ اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ بالکل اس زمانے کی طرح جب امریکا نے صدام کے دور کے عراق پر حملہ کر دیا تھا، لوگوں نے دفاع نہیں کیا، وہ کنارے ہٹ گئے اور امریکا مسلط ہو گيا۔ لیکن اسی عراق میں جب داعش نے حملہ کیا تو لوگ میدان میں آ گئے، انھوں نے داعش کو، جو بہت بڑا خطرہ تھا، پیچھے دھکیل دیا، اس کی سرکوبی کر دی۔ عوام، ملکوں کی آزادی و خودمختاری کا ستون ہیں۔ ہمیں اس کا تجربہ ہے۔ مقدس دفاع میں، مقدس دفاع کے دوران، عوام میدان میں آ گئے اور ایسے عالم میں جب ساری طاقتیں صدام کی حمایت کر رہی تھیں، اس کی مدد کر رہی تھیں، اسلامی جمہوریہ، عوام کی مدد سے غلبہ حاصل کرنے میں اور دشمن کو ناکام کرنے میں کامیاب رہی۔ بنابریں یہ بھی ایک دوسری عبرت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم سب اپنی آنکھیں کھولیں گے، اپنے کان کھولیں گے، صحیح طریقے سے غور و فکر کریں گے، صحیح نہج پر سوچیں گے، صحیح عمل کریں گے اور ان بڑی عبرتوں سے فائدہ حاصل کریں گے۔

خداوند عالم امام خمینی کے درجات مزید بلند کرے کہ یہ سبق، انھوں نے ہمیں سکھائے ہیں، انھوں نے ہمیں اس راہ میں آگے بڑھایا ہے۔ خداوند عالم، شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو، رسول اکرم کی روح مطہر کے ساتھ محشور کرے کہ ان شہیدوں نے ہمیں دنیا میں سربلند کیا ہے۔ میں ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) بلد الامین، صفحہ 183، (اعمال ماہ رجب)

(2) سورۂ جمعہ، آیت 2، "(وہ خدا) وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے ..."

(3) سورۂ آل عمران، آيت 164، "بے شک اہل ایمان پر اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اُن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو انھیں اس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے ..."

(4) سورۂ مائدہ، آيت 50، کیا وہ جاہلیت کی بالادستی کے خواہاں ہیں؟

(5) سورۂ احزاب، آيت 33، اور (اے ازواج نبی!) سابق دور جاہلیت جیسی سج دھج دکھاتی نہ پھرو۔

(6) سورۂ فتح، آيت 26، اس وقت جب (ان) کافروں نے اپنے دلوں میں تعصب (اور وہ بھی) جاہلیت کا تعصب بٹھا لیا۔

(7) کشمیر کے ایک علاقے میں ایک ہندوستانی فوجی افسر کی جانب سے شہید قاسم سلیمانی کی تصویر جلائے جانے کے واقعے کے بعد کشمیری عوام نے مظاہرے کر کے اور اپنی دکانیں بند کر کے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا جس کے بعد اس فوجی افسر نے معافی مانگی اور دیواروں پر شہید سلیمانی اور رہبر انقلاب اسلامی کی تصاویر آویزاں کیں جس کے بعد حالات معمول پر آئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .