۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
سکندر علی بہشتی

حوزہ/رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے یوم ولادت امام حسین علیہ السلام اور ہفتۂ شجرکاری کے موقع پرشجرکاری کی اہمیت اور حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی ہے، اسی مناسبت سے مختصر معروضات پیش خدمت ہے۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی। رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے یوم ولادت امام حسین علیہ السلام اور ہفتۂ شجرکاری کے موقع پرشجرکاری کی اہمیت اور حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی ہے، اسی مناسبت سے مختصر معروضات پیش خدمت ہے۔
ماحولیاتی آلودگی اور شجر کاری انتہائی اہم موضوع ہے۔جیساکہ اج بین الاقوامی سطح پر انسانی تہذیب وتمدن کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے اسباب میں انسان کی روز افزوں ترقی،جدید ٹیکنالوجی، نئی ایجادات،بڑھتی آبادی،قدرتی مناظر کی جگہ مصنوعی وسائل کی ایجاد اور مختلف دیگر عوامل کارفرما ہیں،جن کی وجہ سے ہوا،زمین،پانی،فضا الغرض ہر چیز آلودہ اورنتیجے میں انسانی زندگی بحران کاشکار ہے۔
ماہرین نے ہوا، زمین اور پانی کو ماحول کی اقسام میں شامل کیا ہے اور ان کی اہمیت کے پیش نظرآلودگی سے پاک رکھنے کی ضرورت وتدابیر پر زور دیا ہے۔ جو انسان کی صحت وسلامتی کے لیے ضروری ہے،ساتھ ہی اگر انسان کو جسم وروح کا مجموعہ قرار دیاجائے تو ماحول میں انسان کی روح کوآلودہ کرنے والے اسباب بھی شامل ہوتے ہیں۔ جیسےمعاشرتی،اخلاقی،تعلیمی،سیاسی اور معاشی آلودگیوں کے منفی اثرات سے بھی چشم پوشی نہیں کرسکتے،ان کو بھی پاک صاف رکھنا انسانی زندگی کے لئے اسلامی نکتہ نظر سےلازم ہے۔ کیونکہ زمین،ہوا اورپا نی کی آلودگی انسان کے بدن کو متاثر کرتی ہے تو اخلاقی وروحی آلودگی معاشرے کوتباہی کے دہانے پر پہنچا کر دنیا وآخرت دونوں میں انسان کو شقاوت وبدبختی سے دوچار کردیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ:
ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات اور اس سلسلےمیں ہماری کیا ذمہ داری ہے۔؟
اسلامی قوانین،قرآن کریم کی تعلیمات، سیرت طیبہ اور دیگر پیشوایان دین کے فرامین اور عملی زندگی میں اس حوالے سے بہت سی ہدایات موجود ہیں جو ہمارے لئے راہنما اور مشعل ہے۔
اللہ تعالی نے زمین کو پیدا کرکے اسے انسان کے اختیار میں دیا ہے تاکہ وہ اس کی شناخت کے بعد اس امانت سے استفادہ کا طریقہ جان لے۔ قرآن کا یہ ارشاد اس بارے میں ایک جامع قانون کی حیثیت رکھتا ہے کہ:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا(القرآن،18/7)
ترجمہ: روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں ازمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔
پیغمبر اکرم (ص)نے مشرکین کے شہروں میں زہر پھینکنے سے منع کیا: جیساکہ روایت ہے عن على عليه السلام: نَهى رَسولُ اللّه ِ صلي الله عليه و آله اَنْ يُلْقَى السَّمُّ فى بِلادِ الْمُشْرِكينَ۔(کلینی،محمد یعقوب،فروع کافی،ج5،ص28)
جب بلاد مشرکین میں زہر پھنکنے سے منع کیا ہے۔کیونکہ اس کی آلودگی سے مشرکین اور وماحول کو نقصان پہنچتاہے تو بطریق اولیٰ مسلمانوں کی سرزمین کو آلودہ کرنا حرام ہوگا جس کا نتیجہ ایسے معاملات کی حرمت ہے جو آلودگی کا سبب بنتے ہیں، کیونکہ زمین پر بھی تمام انسانوں کا مشترکہ حق ہے اور اس کی تخریب وآلودگی حق الناس ہے اور سنگین گناہ بھی، اس کے مقابل اس کو آباد کرنے کی تاکید آئی ہے
هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا(القرآن،61:11)
ترجمہ: اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اوراس میں تمہیں آباد کیا۔
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں۔
تحفظوا مِنَ الْأَرْضِ فَإِنَّهَا أُمُّکُمْ(بحارالانوار ،ج7،ص 97)
زمین کی حفاظت کرو یہ تمہاری ماں ہے۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی فرماتے ہیں:فَإِنَّکُمْ مَسْؤُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ وَ الْبَهائِمِ، (نہج البلاغہ،خطبہ،ص228)
تم سے سوال ہوگا یہاں تک کہ زمین اور جانوروں کے بارے میں۔ یعنی ماحول کی نسبت انسان مسئول وجواب دہ ہے۔

اہل بیت واصحاب سے منقول روایات میں ماحول کی حفاظت کے لیے شجرکاری کی اہمیت اور ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔اس بارے میں پیغمبر اکرم ختمی مرتبت کا فرمان ہے۔إن قامَتِ السَّاعَةُ و فِي يَدِ أحَدِكُم فَسيلَةٌ، فإنِ استَطاعَ أنْ لايَقومَ حَتّى يَغرِسَها، فَليَغرِسْها۔(وسائل الشیعہ،ص 197)
اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اسے لگا سکتا ہے تو اسے لگا دینا چاہیے۔
حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں معروف ہے کہ آپ کی خلافت سے پہلے کی زندگی کے اکثراوقات شجرکاری میں گزرتے تھے اسی لئے آپ نے اپنی زندگی میں ساٹھ ہزار کھجور کے درخت کاشت کئے۔امام صادق نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی بیلچے کے ذریعے زمین کو تیار کرتے اور پیغمبر کھجور کو ترکرکے کاشت کرتے تھے۔خصوصاً خلافت کے ابتدائی دور میں کنواں کھودتے، کھجور کے درخت لگاتے اورلوگوں کے لیے وقف کرتے تھے۔(کلینی، کافی، ج 5، ص 74)
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں۔کھجور اور درخت گھر کے لیے،باعث برکت ہے۔(کنزل العمال)
اسی طرح باقی ائمہ اہل بیت کی سیرت کردار میں شجرکاری کوبطور پیشہ انتخاب کرنے کی بہت سی مثالیں اور روایات تاریخ نے نقل کی ہیں۔خصوصا امام صادق علیہ السلام سے کثیر روایات نقل ہیں کہ آپ فرماتے ہیں:
ازْرَعُوا وَ اغْرِسُوا فَلَا وَ اللَّهِ مَا عَمِلَ النَّاسُ عَمَلًا أَحَلَّ وَ لَا أَطْيَبَ مِنْهُ۔ (مجلسی،مرآۃ العقول،حدیث 3)
زراعت کرو، اور درخت لگاو، لوگوں کے کاموں میں اس سے حلال اور پاکیزہ کوئی پیشہ نہیں ہے۔۔
اسی طرح درخت کو کاٹنے سے منع کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لا تَقطَعُوا الثِّمارَ فَيَبعَثُ اللّه ُ عَليكُمُ العَذابَ صَبّا۔(حرعاملی،وسائل الشیعہ،ج 13 حدیث24104)
پھل دار درختوں کو نہ کاٹو کیونکہ خدا تم پر سخت عذاب نازل کرے گا۔

آج سےچودہ سو سال پہلےقرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ماحولیات کے حوالے سے جوتعلیمات پیش کی ہیں، جس کو سمجھنے سے آج کی سائنس وٹیکنالوجی کے زمانے کا انسان عاجز ہے۔ معاصر انسان بھی وحی اورسیرت طیبہ کو اپنے لیے راہنما قرار دیے بغیر انسانی مسائل کو حل نہیں کرسکتا، اس لیے نبی کریم کی سیرت پاک،اسلامی دستورات اورقرآن کریم کےپاکیزہ پیغام کو زندگی کےتمام میدانوں میں مشعل راہ قراردینے میں ہی امت مسلمہ کی سعادت دنیاوی واخروی مضمر ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .