حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے مدرسہ علمیہ الزہرا (س) اراک کی ثقافتی امور کی مسئول محترمہ گیتی فیروزی نے کہا: تمام انبیاء اور اولیاء ہمیشہ بندگانِ خدا سے یہ توقع رکھتے رہے ہیں کہ وہ اپنے اعمال اور تمام امور میں خدا کو محور بنائیں اور ہر کام میں رضائے الٰہی کو بنیاد قرار دیں۔ امام حسن مجتبی(ع)، جو خود سراپا اخلاص اور خدا محور تھے، بھی امتِ اسلامی اور شیعیان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی تمام سرگرمیوں میں رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا: امام حسن علیہ السلام نے اس حقیقت کو بعض اوقات لوگوں کے رجحانات کے تناظر میں بیان کیا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: "مَنْ طَلَبَ رِضَی اللّهِ بِسَخَطِ النّاسِ کَفاهُ اللّهُ اُمُورَ النّاسِ وَ مَنْ طَلَبَ رِضَی النّاسِ بِسَخَطِ اللّهِ وَکَّلَهُ اللّهُ اِلَی النّاسِ"۔ یعنی جو شخص خدا کی رضا کو طلب کرے، چاہے اس سے لوگ ناراض ہو جائیں تو خدا اسے لوگوں کے معاملات سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو شخص لوگوں کو راضی کرنے کے لیے خدا کو ناراض کرے تو خدا بھی اسے لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
محترمہ گیتی فیروزی نے کہا: ماہِ مبارک رمضان اخلاص کی مشق اور رضائے الٰہی کے حصول کا مہینہ ہے، اس میں یہ توقع دوچنداں ہو جاتی ہے کیونکہ ماہِ رمضان کا اصل مقصد یہ ہے کہ امتِ اسلامی اور شیعیان رضائے الٰہی کی بلندیوں تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اس مہینے کے اختتام پر سبھی اس ہدف تک پہنچیں۔ رضائے الٰہی کا حصول تمام انبیاء کی آرزو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: امام حسن علیہ السلام کی ایک اور نصیحت جو عمل اور کوشش کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، یہ ہے کہ انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام کا یہ بامعنی اور حکمت بھرا فرمان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے: "وَ اعْمَلْ لِدُنْیاکَ کَاَنَّکَ تَعیشُ اَبَدا وَ اعْمَلْ لآخِرَتِکَ کَاَنَّکَ تموت غَدا" یعنی "اپنی دنیا کے لیے ایسے کام کرو گویا تم ہمیشہ اس دنیا میں رہو گے اور اپنی آخرت کے لیے ایسے عمل کرو گویا تم کل ہی اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہو۔
آپ کا تبصرہ