از قلم: محترمہ ڈاکٹر مسرور صغریٰ
ہے راحت بتول نواسہ نبی کا ہے
فرزند ارجمند یہ حق کے ولی کا ہے
لے کر چراغ ڈھونڈ لے شام و سحر اُفُق
لائے حسن سا کوئی جو بیٹا کسی کا ہے
انجم کہاں سے سایئہ عفت کو چھو سکے
اس کشور ارم میں نظارہ اسی کا ہے
تاباں رخ نعیم بھی اس کے حشم سے ہے
ہے ماہ کا یہ شمس قمر روشنی کا ہے
انداز حرب دیکھ کے کہنے لگا شقی
بھائی ہے یہ جری کا غضنفر علی کا ہے
کر دے غنی جو خدمت کم کے جواب میں
وہ شاہ شہنشاہ نجف کی گلی کا ہے
جس کی تجلیوں سے ہے خیرہ نگاہ نوح
اے طور دیکھ خون یہ سبط نبی کا ہے
سلطان شام کفر کا عنوان بن گیا
حکمت ہے یہ حسن کی قلم ہاشمی کا ہے
رہ کر زمیں پہ حق سے رہا محو روبرو
چشم مبارکہ میں اثر بندگی کا ہے
صغریٰ درِ امام کی جاروب کش بنوں
تنہا یہی عروج مری زندگی کا ہے
از قلم: ڈاکٹر مسرور صغریٰ
آپ کا تبصرہ