از قلم: مولانا محمد ابراہیم نوریَ قمی
جو تیرے در پہ جھکا ہے رضا کی ہمشیرہ
خمینی بن کے اٹھا ہے رضا کی ہمشیرہ
بکھر نہ پائے گا شیرازہ شہر قم کا کبھی
یہاں قیام ترا ہے رضا کی ہمشیرہ
میں اب کے جاوں گا مشہد تری نیابت میں
یہ میں نے عزم کیا ہے رضا کی ہمشیرہ
تری ولا میں فنا ہیں یہ میرے فن پارے
سو ان میں رنگ بقا ہے رضا کی ہمشیرہ
زبان اشک تو ماں کی طرح سمجھتی ہے
یہ تجربہ بھی ہوا ہے رضا کی ہمشیرہ
خیال آیا ہے اکثر یہ تیرے روضے پر
بتول جلوہ نما ہے رضا کی ہمشیرہ
اسی میں تیرے مناقب کا اک جہاں ہے نہاں
امام تجھ پہ فدا ہے رضا کی ہمشیرہ
پرائے دیس میں جب جب بھی ماں کی آئی
دلاسہ تو دیا ہے رضا کی ہمشیرہ
بھری ہے جھولی ہماری، سوال سے پہلے
ترا کرم ہی جدا ہے رضا کی ہمشیرہ
ترے حرم میں اسی دم یہ دم نکل جائے
خدا سے میری دعا ہے رضا کی ہمشیرہ
ترے حرم میں یہ زائر کے لب سے میں سنا
کہ تو بھی عقدہ کشا ہے رضا کی ہمشیرہ
کبھی رضائے امام رضا نہیں ملتی
اگر کسی سے خفا ہے رضا کی ہمشیرہ
موالیانِ علی قم میں آ کے بستے ہیں
یہ تیرا شہرِ ولا ہے رضا کی ہمشیرہ
اک آفتاب امامت ہے موسئ کاظم
اسی کی ذاتی ضیا ہے رضا کی ہمشیرہ
تمہارے باب کرم پر کریمہ آتے ہی
فقیر شاہ بنا ہے رضا کی ہمشیرہ
خلوصِ دل سے کہو اشفعی لنا نوریَ
شفیعِ روز جزا ہے رضا کی ہمشیرہ
از قلم: شاعر اہل بیت مولانا محمد ابراہیم نوریَ قمی









آپ کا تبصرہ