تحریر و ترتیب: مولانا سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حلم وقوت صبر کا جواب نہیں تھا تاریخ میں آپ کے بلندی اخلاق کاایک عجیب واقعہ نقل کیا گیا ہے ۔
عائشہ سے روایت ہے؛ وہ کہتی ہیں ایک دن ایک مرد شامی سے امام حسن کی ملاقات ہوئی امام اس وقت گھوڑے پر سوار تھے شامی نے آپ کو پہچان تے ہی آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اورجو منہ میں آیا آپ کو کہہ ڈالا امام حسن علیہ السّلام خاموش سب کچھ سنتے رہے جب وہ شامی چپ ہوگیا تو حضرت نے اسے سلام کیا اور ہنس دیۓ۔
فرمایا میرے خیال میں تم مسافر ہو تمہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے اگر تم معافی چاہو تو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر مجھ سے کچھ توقع ہے تو عطا کروں گا اگر تم مجھ سے ہدایت لینا چاہو تو میں تمہاری رہنمائی کروں گا اگر تمہاری کوئی حاجت ہے تو میں اسے پوری کروں گابھوکے ہو تو کھانا کھلاوں گا اگر تمہارے پاس لباس نہیں تو میں تمہیں لباس عطا کروں گا محتاج ہو تو بے نیاز کردوں گا پناہ چاہتے ہو تو میں تمہیں پناہ دوں گا۔۔۔اور اگر تم میرے گھر مہمان ہونا چاہو تو میں تمہاری مہمان نوازی کروں گا تم جب تک چاہو میرے گھر قیام کرو میرا گھر کافی بڑا اور کشادہ ہے اور میرے گھر میں الگ سے ایک مہمان خانہ بھی ہے اور خدا نے مجھے اچھی خاصی دولت وثروت دی ہے وہ مرد شامی یہ سنکر روپڑا اور امام سے کہتا ہے کہ؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی اس روے زمین پر اللہ کے سچے خلیفہ ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں پر رکھے ؛ آج سے پہلے میرے نزدیک آپ اور آپ کے بابا سب سے بڑے دشمن تھے مگر آج کے بعد آپ سے اور ان سے بڑا کوئی میرا دوست نہیں پھر وہ امام حسن کے گھر مہمان ہوا اور آپ کے خاندان کا معتقد ہوگیا۔
بحوالہ مناقب آل ابی طالب ج چار ص انیس وبحار الانوار ج تینتالیس۔
آپ کا تبصرہ