۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ماہ رمضان المبارک کے تیرھویں دن کی دعا

حوزہ/منتخب پیغام: ایک سالک الیٰ اللہ سے پوچھا گیا کہ:تقوا کیا ہے:کہا:جب بھی تمکسی ایسی جگہ پر جاتے ہو جہاں کانٹے بچھے ہوں تو تم کیا  کرتے ہو؟کہا گیا:اپنے آپ کو بچاتے ہیں دامن بچا کر چلتے ہیں اور اپنی حفاظت کرتے ہیں تاکہ کانٹے دامن سے نہ الجھ جائیں اور کوئی نقصان نہ پہنچا دیں،کہا :دنیا میں بھی ایسا ہی کرو ،کیونکہ تقوا اسی کا نام ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

ماہ رمضان المبارک کے تیرھویں دن کی دعا

ماہ رمضان المبارک کے تیرھویں دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

أَللّـهُمَّ طَهِّرْنى فيهِ مِنَ الدَّنَسِ وَ الاَقْذارِ وَ صَبـِّرْنى فيهِ عَلى كآئِناتِ الاَقْـدارِ وَ وَفِّقْنى فيهِ لِلتُّقى وَ صُحْبَةِ الاَبْرارِ بِعَـوْنِكَ يا قُرَّةَ عَيْنِ الْمَساكينَ۔

ترجمہ:اے معبود آج ( اس ماہ) مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں، میل کچیل سے پاک کر دے اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لئے مقدر ہوئی ہیں، اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق عطا فرما ، تیری مدد کے واسطے اے مسکین و بےچاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔

اہم نکات

(1) آلودگیوں اور ناپاکیوں سے دوری (2)مشکلات پر صبر(3)تقوا اور پرہیزگاری(4)نیک لوگوں کی ہم نشینی۔

دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح

۱– أَللّـهُمَّ طَهِّرْنى فيهِ مِنَ الدَّنَسِ وَ الاَقْذارِ:

دنس کے معنی کثافت اور ناپاکی کے ہیں؛ اور اقذار، قذر کی جمع ہے جسکے معنیٰ پلیدی اور میل کچیل کے ہیں،ہم دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں آلودگی سے پاک رکھ، آلودگی سے مراد گناہ و معصیت ہے جس کی بدبو انسان کی روح کو گھیر لتی ہے جبکہ انسان اگر مؤمن ہو تو اسکے اندر روح کی خوشبو بسی رہتی ہے "اویس قرنی" جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے ملاقات کرنے کو آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا گھر اور اسکی فضا معطر ہوگئی اسی لئے جب دوسرے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اپنے گھر واپس آئے تو فرمایا: «إِنِّی لَأَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ جَانِبِ الْیمَن»، اویس کی خوشبو محسوس کر ہے تھے ، یہ ایمان کی خوشبو تھی۔جیسے کربلا کی خاک سے ایمان والوں کی خوشبو آج تک مشام عالم کو معطر کئے ہوئے ہے۔۔۔

گناہ باطنی طور پر نجاست کی مانند ہوتا ہے؛چنانچہ ہم جس عضو سے بھی گناہ کرتے ہیں ہمارا وہ عضو باطنی طور پر ناپاک ہوجاتا ہے اور نجاست کے اندر بدبو ہوتی ہے۔ لہٰذا انسان جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے ان اعضاء سے باطنی طور پر بدبُو آتی ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ انسان جب جھوٹ بولتا ہے، تو اس کے منہ سے بدبو نکلتی ہے حتیٰ کے فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس بندے سے دور ہوجاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا کہ جب آدمی کی وفات ہونے کا وقت قریب آتا ہے تو ملک الموت کے ساتھ آنے والے فرشتے اس آدمی کے اعضاء کو سونگھتے ہیں، جن اعضاء سے اس نے گناہ کئے ہوتے ہیں، ان اعضاء سے ان کو بدبُو محسوس ہوتی ہے، نیکو کار انسان کے اعضاء گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے بدبو محسوس نہیں ہوتی کیونکہ نیکی میں خوش بُو ہوتی ہے، لہٰذا نیک لوگوں کے اعضاء سے خوش بُو آتی ہے، رب العزت اپنے پسندیدہ افراد کے اندر نیکی کی خوش بُو اتنی بڑھا دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو ظاہر میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ کے پسینۂ مبارک سے اتنی خوش بُو آتی تھی کہ مدینہ منورہ کی دلہنیں بھی وہ پسینۂ مبارک، بہ طور خوش بُو استعمال کرتی تھیں۔ اور آپؐ جس راستے سے گزر جاتے تو وہ راستہ معطر ہوجایا کرتا تھا۔۔۔۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبH:تعطّروا بالاستغفار لا تفضحنّكم روائح الذنوب؛ اپنے آپ کو استغفار سے آراستہ کرو ورنہ گناہ کی بدبو تمہیں بے آبرو کر دے گی۔۔۔۔

۲– وَ صَبـِّرْنى فيهِ عَلى كآئِناتِ الاَقْـدارِ:

دعا کے اس حصہ میں ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ مجھے تیری قضا و قدر کے مقابلے میں راضی رکھ، اس لئے پروردگار سے درخواست کرتے ہیں کہ خدایا مجھے اپنی تقدیر کے سامنے صابر بنا «کَائِنَاتِ الْأَقْدَارِ»، سے مراد حتمی قضا و قدر الہی ہے ، امام المتقین حضرت امیرالمومنین علیہ السلام مناجات شعبانیہ کے ایک فقرہ میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِیرُك عَلَیَّ یا سَیِّدِی فِیمَا یكونُ مِنِّی إِلَی آخِرِ عُمْرِی مِنْ سَرِیرَتِی وَ عَلانِیتِی"، "اور یقیناً تیری تقدیریں میرے بارے میں اے میرے آقا، میری عمر کے آخر تک جاری ہوئی ہیں میرے خفیہ امور اور آشکار امور کے متعلق"،اصطلاح میں قدر و تقدیر الہی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کے لئے مقدار، کیفیت، زمان اور مکان کے لحاظ سے اندازہ اور حدود مقرر کئے ہیں جو تدریجی علل و اسباب کے باعث ، بعید، متوسط اور قریب مقدمات پر مشتمل ہوتے ہیں، بعض اسباب کی تبدیلی سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ تبدیلی، تقدیر میں تبدیلی شمار ہوتی ہے۔۔۔،قضاوقدر کی بحث، علم کلام کی دشوارترین بحثوں میں سے ہے،قضاوقدر کے بارے میں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایسا ہے کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ اللہ کی قضاوقدر کے مطابق ہے تو پھر دعا کرنے کا کیا فائدہ ہے اور زندگی میں انسان کی کوشش و محنت کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:

اولاً: قضاوقدر گھنی ٹہنیوں والے درخت کی طرح ہے، اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی یہی دعا کرنا اور پھر دعا کا مستجاب ہونا قضائے الہی کا ایک مصداق ہے، یعنی اللہ کی قضاوقدر اس بات سے تعلق پائی ہے کہ انسان کی زندگی میں دعا اور دعا کی استجابت ہو۔

نیز اللہ تعالی نے یہ ارادہ کیا ہے اور یوں قضاوقدر کو جاری کیا ہے کہ جو شخص زندگی میں محنت و کوشش کرے وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جائے گا اور یہ مقدر کیا ہے کہ جو شخص تقوا اختیار کرے وہ کامیاب ہوجائے گا۔

ثانیاً: دعا قضائے الہی کو بھی بدل سکتی ہے، جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (Aسے نقل ہوا ہے: "اَلدُّعاءُ یَرُدُّ الْقَضاءَ وَ قَدْ اُبْرِمَ اِبْراما"[1]، "دعا، قضا کو ٹال دیتی ہے چاہے قضا بالکل مضبوط ہوچکی ہو"۔ یہ عالم خلقت کا ایک اور عجیب شاہکار ہے کہ انسان اس عظیم کائنات میں اللہ کے اذن و اجازت سے اتنا اثر ڈال سکتا ہے۔۔۔

شب قدر کی جو اتنی اہمیت ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں جا کر دیکھیں کہ اپنی مقدرات میں کیسا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کم سے کم، ادب و احترام اور تواضع کے ساتھ عرض کریں: بارالہا! ہاں میں نے ایک سال تیری نافرمانی کی، لیکن اسی ایک رات میں جس کے بارے میں تو نے فرمایا ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، میں آیا ہوں اور خاکساری کے ساتھ تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں…۔ یہی شب قدر کی انکساری ہمارے مقدرات میں بہت اثر ڈال سکتی ہے۔

خیال رہے کہ ہوسکتا ہے شیطان انسان کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ تم ایک سال میں انسان نہیں بنے تو اب ایک ہی رات میں کب انسان بن جاوگے؟ اگر ایسی سوچ آئے تو انسان اس بات پر غور کرے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس رات میں مقدرات لکھے جاتے ہیں، ہوسکتا ہے یہی ایک رات کو میں سیدھی راہ پر آجاوں اور ہدایت پاجاوں اور میرے مقدر بدل جائیں، کیونکہ اتنی بڑی رات کو توبہ کرنے والا اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے والا شخص اس آدمی کے برابر نہیں ہوسکتا جو اس ایک رات کو بھی بارگاہ الہی میں نہیں آیا،شب قدر میں یہی شب بیداری اور رات کو جاگنا، بارگاہ الہی میں ایک طرح کا تواضع ہے اور ان مقدرات کا ایک طرح کا احترام ہے جنہیں اللہ ہمارے لیے مقرر کرنا چاہتا ہے۔ مثلا جب ہم شب قدر کو اعمال بجالاتے ہوئے ادب و احترام سے بیٹھے ہوئے کہہ رہے ہیں "الغوث الغوث خَلّصنا مِنَ النّارِ یا رَبّ "تو ہوسکتا ہے اللہ تعالی ہمارے لیے بہتر مقدر اور مصلحت لکھ دے۔۔۔

۳– وَ وَفِّقْنى فيهِ لِلتُّقى:

دعا کے اس حصہ میں ہم پروردگار سے چاہتے ہیں کہ ہمیں تقویٰ اختیار کرنے میں کامیابی عطا کر، تقوی کا معنی یہ ہے کہ اس طرح سے زندگی گذاری جائے کہ اگر کوئی ہمارے اعمال کے بارے میں باخبر ہوجائے تو ہمیں شرمندگی نہ ہو، ماہ رمضان بہترین فرصت ہے تقویٰ کی تمرین کی۔۔۔ ارشاد ربانی ہے" إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ" بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ با تقویٰ ہے [2]۔اگر ہم بھی اپنے پرودگار کے حضور معزز ہونا چاہتے ہیں تو تقویٰ الٰہی اختیار کریں۔

تقوی کا خلاصہ واجبات کو انجام دینا اور محرمات کو ترک کرنا ہے تاکہ انسان دنیا اور آخرت کے بلند مقام تک پہنچ جائے ، تقویٰ (وقایہ) تحفظ کو کہتے ہی جس کے ذریعے سے انسان اپنے آپ کومحفوظ رکھ سکے۔بہت سارے امور ہیں جو انسان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں مختلف خطرات ہیں انسان خطروں میں گھرا ہوا ہے ان خطروں سے نکلنے اوربچنے کے لئے انسان کو محفوظ نظام کی ضرورت ہے جو طرز زندگی ہم نے اپنایاہے ا ور ہم اسکے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں اس نے ہمیں مزید خطروں میں ڈال دیا ہے مزید غیرمحفوظ بنا دیا ہے اگر انسان تقویٰ کے سائے میں آ جائے، الٰہی طرزِ زندگی اپنا لے تو نجات پاجائے گااصل تقوا وہی ہے کہ انسان اس دنیا کے ماحول میں جہاں گناہ کے مواقع کثرت سے ملتے ہیں اپنے آپکو گناہ کی آلودگی سے بچا کر رکھے کیونکہ تقوا اسی طرح اپنے آپکو بچانے کا نام ہے جیسے اپنے کپڑوں کو جھاڑیوں میں الجھنے سے ۔۔۔۔

۴– وَ صُحْبَةِ الاَبْرارِ :

انسان مدنی بالطبع ہے ؛دعا کے اس حصہ میں ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ خدایا ہمیں صرف اچھوں کے ساتھ ہمنشینی کی توفیق دے، اس نکتہ پر غور کریں کہ کس کے ساتھ ہمنشینی کریں صحبت اچھی ہو یا بری ‘ بہر حال اثر رکھتی ہے، اگر انسان نیک وصالح افراد کی صحبت میں رہے تو وہ نیک بن جاتا ہے اسکے لیے نیکیاں کرنا اور برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اور اگر برے لوگوں کی صحبت میں رہے تو وہ بھی لاکھ کوشش کے باوجود برا بن جاتا ہے الا ما رحم ربی۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے بھی بری صحبت سے اجتناب کرنے اور اچھی صحبت اپنانے کا حکم دیا ہے۔ اور یہی بات یوں بیان کی گئی ہے کہ '' صحبت صالح تُرا صالح کنند'' صحبت طالع ترا طالع کند''عرب کہتے ہیں: المرء علی دین خلیلہٖ۔ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کے لیے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے تو اس کا معیار کیا ہونا چاہیئے،آیات و روایات میں دوست کس کو بنانا چاہئے اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: دوست وہ ہے جو تمھیں خدا کی یاد دلائے:« وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وجہهُ؛ اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں[3]۔

رسول خدا1دوست کے بارے میں فرماتے ہیں: مَنْ ذَکَّرَکُمْ بِاللَّهِ رُؤْیَتُهُ وَ زَادَکُمْ فِی عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَ ذَکَّرَکُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُه،[دوست وہ ہے] جس کو دیکھنے سے تمھیں اللہ کی یاد آئے اور جس کی گفتگو کے ذریعہ تمھارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کے ذریعہ تمھیں آخرت کی یاد آئے[4]۔۔۔۔۔

۵– بِعَـوْنِكَ يا قُرَّةَ عَيْنِ الْمَساكينَ :

خدایا اپنی مدد و نصرت سے ان دعاؤں کو مستجاب کر، اے مسکینوں اور بےچاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور انکی آخری امید۔

نتائج

دعا کا پیغام:۱)ظاہری اور باطنی خباثتوں سے پاک ہونے کی درخواست؛۲)مقدراتِ الٰہی پر صبر؛۳)تقوے کی توفیق اور اچھے لوگوں کی مصاحبت؛۴)دعاؤں کی قبولیت۔

منتخب پیغام: ایک سالک الیٰ اللہ سے پوچھا گیا کہ:تقوا کیا ہے:کہا:جب بھی تمکسی ایسی جگہ پر جاتے ہو جہاں کانٹے بچھے ہوں تو تم کیا کرتے ہو؟کہا گیا:اپنے آپ کو بچاتے ہیں دامن بچا کر چلتے ہیں اور اپنی حفاظت کرتے ہیں تاکہ کانٹے دامن سے نہ الجھ جائیں اور کوئی نقصان نہ پہنچا دیں،کہا :دنیا میں بھی ایسا ہی کرو ،کیونکہ تقوا اسی کا نام ہے[5]۔


[1]– ميزان الحكمہ، ج4، ص19

[2]– حجرات/ ۱۳

[3]– سورہ کہف، آیت:۲۸]

[4]– بحار الانوار، ج۷۱، ص۱۸۶

[5] – سفينة البحار، ج ۲، ص ۶۷۸

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سید ثمر مہدی رضوی IN 09:05 - 2024/03/24
    0 0
    بہت ہی بہترین تشریح