تحریر: حجت الاسلام و المسلمین عبدالرحیم اباذری
مترجم: عباس قمی
حوزہ نیوز ایجنسی I اسلامی تعلیمات میں روزے کا ایک اہم مقصد معاشرتی انصاف اور طبقاتی فرق کو کم کرنا بتایا گیا ہے۔ روایات کے مطابق، روزہ امیر اور غریب کے درمیان مساوات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے تاکہ صاحبِ حیثیت افراد، خاص طور پر حکومتی کارگزاران، بھوک اور تنگدستی کا احساس کر سکیں اور غریبوں کی مدد کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
امام حسین علیہ السلام سے جب روزے کے واجب ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: "تاکہ امیر بھوک کا درد محسوس کرے اور غریبوں کی مدد کرے۔" اسی طرح، امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "روزے کا مقصد یہ ہے کہ امیر اور غریب برابر ہو جائیں، کیونکہ دولت مند شخص عام طور پر بھوک کا تجربہ نہیں کرتا۔"
روایتی افطاری یا حقیقی انصاف؟
رمضان میں غریبوں کو افطاری دینا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: "جو کسی مؤمن کو افطاری دے، اس کے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔"
لیکن کیا صرف روایتی افطاری کے ذریعے معاشرتی انصاف قائم ہو سکتا ہے؟ ماضی میں، ایک معمولی کھانے سے غریبوں کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں، مگر آج کے دور میں صرف کھانے کی تقسیم سے غربت ختم نہیں ہو سکتی۔ آج غریبوں کی اصل ضرورت معیاری زندگی، روزگار اور رہائش ہے۔
حکمرانوں اور امیر طبقے کی ذمہ داری
اسلامی معاشرے میں دولت مند افراد اور حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غربت کے مستقل حل پر توجہ دیں۔ محض افطاری دینے کے بجائے، وہ روزگار کے مواقع فراہم کریں، رہائش کے مسائل حل کریں اور معاشی استحکام کے لیے اقدامات کریں۔ یہی حقیقی معنوں میں "اطعامِ طعام" کی روح ہے، جسے آج کے دور میں عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔
اگر روزے کا مقصد معاشرتی انصاف ہے، تو ہمیں اس کا جدید اور مؤثر طریقہ اپنانا ہوگا، تاکہ حقیقی مساوات قائم ہو سکے۔
آپ کا تبصرہ