تحریر: عبد الرحیم اباذری
حوزہ نیوز ایجنسی I ماہِ رمضان کا بابرکت مہینہ آ چکا ہے اور تمام مسلمان روزہ رکھنے کے پابند ہیں۔ فقہی لحاظ سے روزہ رکھنے کا مطلب ہے کہ طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے اور دیگر ممنوعہ کاموں سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن روزے کا ایک باطنی پہلو بھی ہے، جس میں صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنا کافی نہیں، بلکہ ہر طرح کے گناہ، برے اخلاق اور نافرمانی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: « رُبَّ صائمٍ حَظُّهُ مِن صيامِهِ الجُوعُ و العَطَشُ » "بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔" امام علیؑ نے بھی روزے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ « الصِّيامُ اجتِنابُ المَحارِمِ كما يَمتَنِعُ الرجُلُ مِنَ الطَّعامِ و الشَّرابِ، كَم مِن صائمٍ ليسَ لَهُ مِن صيامِهِ إلاّ الجُوعُ و الظَّمَأ »ُ "روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ تمام حرام کاموں سے بچنے کا نام ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزے کے دوران دوسروں کے حقوق پامال کرے، جھوٹ بولے، ظلم کرے یا کسی کا دل دکھائے، تو اس کا روزہ بے اثر ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت کو دیکھا جو روزے کی حالت میں اپنی کنیز کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: "یہ کیسا روزہ ہے جس میں تم اپنی زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچا رہی ہو؟"
روزہ داری صرف عام افراد کے لیے نہیں، بلکہ حکمرانوں اور عہدیداروں کے لیے بھی ایک کسوٹی ہے۔ جو حکمران روزہ تو رکھتے ہیں لیکن عوام کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، انصاف میں کوتاہی کرتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں یا عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھتے ہیں، وہ محض بھوکے پیاسے رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر رہے۔ حقیقی روزہ دار وہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو دیانتداری سے نبھائے اور عوام کی فلاح کے لیے کام کرے۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق تو شاید معاف ہو جائیں، لیکن بندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہوں گے جب تک متاثرہ افراد خود معاف نہ کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم روزے کو صرف ظاہری عبادت نہ سمجھیں بلکہ اس کے اصل مقصد کو بھی اپنائیں اور اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بنائیں۔
آپ کا تبصرہ