از قلم: عرفان مانٹوی
پھر کلی کا چٹخنا شروع ہوگیا،اور چڑیوں کے پر پھڑ پھڑانے لگے
کیا مدینے کی گلیوں میں حیدر کے گھر،ابنِ زہرا حسن آج آنے لگے
نیلگو ہے فلک اور مہکی زمیں،گرم راتوں میں ٹھنڈی ہوا چل پڑی
خشک پتّوں میں ہریالی آنے لگی،سارے دریا خوشی سے سمانے لگے
رت سُہانی میں جھوکے ہوا کے چلے،نرم گرمی میں ابر کرم آگیا
یہ مہینہ مبارک تبھی ہوگیا،جب حسن اس مہینے میں آنے لگے
چل پڑی ہیں مدینے کو حوریں سبھی،اور ملک سوئے بیت محمد چلے
میری جنّت کے سید ہیں ابنِ علی یہ قصیدے فرشتے سنانے لگے
بے زباں کے دہن میں زباں آگئی،جان جسموں میں بے جاں کے آنے لگی
تو شجر کی ہری شاخ پہ بیٹھ کے،یہ پرندے سبھی گنگنانے لگے
پھول بوئے جناں کو لٹانے لگا،اور چمن میں نئی تتلیاں آگئیں
باغ سارے مہکنا شروع ہوگئے،مشك و عنبر میں گلشن نہانے لگے
پھر روانی سمندر میں بڑھنے لگی،اور ندیوں کا پانی اچھلنے لگا
اور بحرِ مودت میں لہریں چلیں،خشک ساحل اسی میں نہانے لگے
بام کافی دنوں سے تھے سوکھے ہوئے،تو جدار مدینہ بھی سوکھی رہی
یہ سحر آگئی جب تو بام و جدار، آب شبنم سے خود کو بھیگانے لگے
ہاتھ عرش بریں کی طرف تھے اُٹھے،اور رکھا تھا سجدے میں سر کو ابھی
ہوگئی ہے ولادت حسن کی علی،مسکرکرکے احمد بتانے لگے
جگمگانے لگا ہے یہ سارا جہاں ، تو چراغاں بہشت خدا میں ہوا
کھل گیا ہے نبوت کا چہرہ بہت،تو امامت کے لب مسکرانے لگے
شکل ایسی ہے جیسے ہو بدر منیر،آنکھ ایسی ہے جیسے کہ انجم ہو یہ
رشک کرنے لگے یوسف دلنشیں، ناز شبّر کے یوسف اٹھانے لگے
مل گیا ہے شرف نوکری کا اسے، جسکو رضوان کہتے ہیں سارے ملک
جبرئیل امیں کو تو دیکھو ذرا ، آکے جھولا حسن کا جھلانے لگے
گرم پانی میں جیسے اُبال آگیا، ریت گرمی سے خود کو جلانے لگی
ماہِ رمضاں کی پندرہویں تاریخ کو ، شیخ جی اِس طرح تلملانے لگے
دل جلے ہیں جو بغضِ حسن میں کئی،دل جلا اتنا جیسے کباب ہوگیا
درد، سر میں ہوا اتنی تیزی سے کہ، خاک پہ بیٹھ کر سر کھجانے لگے
فاطمہ کی عطا ہے یہ عرفان پر، ورنہ خاکی کہاں اور نوری کہاں
مدحِ شبّر میں لکھ کر قصیدے نئے ، ہم مقدر کو اچھا بنانے لگے