حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انقلابِ اسلامی ایران چھیالیس برس کا ہو گیا ہے، جبکہ انقلابِ اسلامی کی فتح سے پہلے کی نسبت عالم اسلام میں بصیرت اور خود شناسی کے ساتھ خود اعتمادی ہے؛ آج خطے میں ہر جگہ اسلامی ممالک انقلابِ اسلامی کو نمونۂ عمل قرار دیتے ہوئے اپنے نظریات، آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بحرین اور دیگر عرب ممالک میں عوامی قیام، عراق، یمن اور لبنان میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل وغیرہ امام خمینی (رح) کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
اس سلسلے میں عراقی ماہر "قاسم سلمان العبودی" نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اور بالخصوص عراق پر انقلابِ اسلامی ایران کی کامیابیوں کے اثرات کے موضوع پر حوزہ نیوز ایجنسی کو ایک اہم انٹرویو دیا ہے، جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
حوزہ: آپ کی نظر میں، انقلابِ اسلامی کی فتح نے خطے کے عوام پر یا اس سے ہٹ کر مغربی اور افریقی ممالک کے عوام خاص طور پر دنیا بھر کے جوانوں کی بیداری پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
سلمان العبودی: انقلابِ اسلامی کی فتح سے دنیا پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے اور ہو رہے ہیں، بہت سے دعویداروں نے اسلام کی تاریک تصویر پیش کی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کو اس کے حقیقی اسلامی مواد سے خالی کر دیا ہے۔
انقلابِ اسلامی کے طرزِ عمل اور اس کے بانی کی رفتار نے اصلی دین محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تصویر کو لوگوں کے ذہنوں میں زندہ کردیا، لہٰذا ہم نے ایرانی انقلاب کے ساتھ دنیا کے غیر مسلم لوگوں کے زبردست تعامل کا مشاہدہ کیا، جس نے اپنی اصل خصوصیات کو واضح اسلامی احکام سے حاصل کیں۔
انقلابِ اسلامی کی فتح کے بعد ایران کے بارے میں عالمی سیاست دانوں کے نقطۂ نظر میں تبدیلی آئی
جو لوگ شاہ مزدور کے زمانے میں ایران کو خلیج فارس کی پولیس کے طور پر دیکھتے تھے، انہوں نے نئی حقیقت کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بدل لیا اور انقلاب کے قائدین کو ایک مختلف نقطۂ نظر سے دیکھا؛ مثال کے طور پر ہم نے سامراجی طاقتوں کے ساتھ جنگ میں حکومت اسلامی ایران کے ساتھ واحد عرب حامی شامی مرحوم صدر حافظ الاسد کا طرزِ عمل دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ لیبیا، معمر قذافی کے ذریعے، ایران اور اس کے انقلاب کے ساتھ عرب ممالک کی ملاقاتوں میں منصفانہ تھا اور صدام کی حکومت کو ایران کے خلاف غیر منصفانہ جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ان کے علاوہ خطے اور دنیا کے لوگ بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے کر دین ناب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی تہذیبی اور ثقافتی رفتار کی جانب جذب ہونے لگے۔ ہم نے دیکھا کہ ان مظلوموں پر انقلابِ اسلامی کے اثرات جو ایران کو اپنے اہداف کے حامی کے طور پر دیکھتے تھے، خواہ وہ یورپ ہو، افریقہ یا ایشیا، واضح تھے۔
حوزہ: ایران میں انقلابِ اسلامی کی فتح کے بعد یمن، عراق، لبنان اور شام میں اسلامی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے اور نائیجیریا جیسے ممالک میں بیداری کی تحریکوں نے خطے کے عوام کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کیے؟
سلمان العبودی: انقلابِ اسلامی کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ سرحدوں سے ماورا انقلاب ہے؛ یعنی ظالم کے خلاف مظلومین کا انقلاب، اس لیے ایران میں انقلابِ اسلامی کی فتح کے بعد عرب دنیا کے بعض خطوں کے لوگوں نے آمرانہ انداز میں حکومت کرنے والے حکمرانوں کا تختہ الٹنے کی ضرورت کو محسوس کیا۔
ایرانی انقلاب کے تجربے سے خطے کے عوام نے استفادہ کیا
وہ لوگ جو آزادی کے خواہاں تھے، انہوں نے ایرانی اس تجربے کو دہرانا ضروری سمجھا کہ جس نے ایران میں امریکی تسلط کو تباہ کیا تھا؛ بعض لوگ واقعی میں نظریہ اور عقیدے کے اعتبار سے انقلابِ اسلامی سے وابستہ تھے؛ اس وابستگی کا نتیجہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ، عراق میں اسلامی مزاحمتی تحریک اور یمن میں انصار اللہ کی تشکیل تھی؛ مزاحمت کے ان نئے گروہوں کو ایران کی قیادت کی سیاسی، اخلاقی اور حتیٰ کہ مادی حمایت کی اشد ضرورت تھی اور ایران نے بھی ان کے لیے اپنی حمایت سے دریغ نہیں کیا اس انقلاب کہ جس نے بادشاہ مزدور کے استکبار اور استبداد کو ختم کر دیا، کے زیرِ اثر غاصب صیہونی فریق کے ساتھ فلسطینیوں کے تصادم کا دائرہ وسیع ہو گیا۔
لبنان، عراق اور یمن میں آزادی کی تحریکوں کا ظہور اور انقلابِ اسلامی سے ان کی وابستگی نے انہیں امریکی اور غاصب صیہونی تسلط کو مسترد کرنے والے ممالک میں سر فہرست کردیا؛ آج عرب اور اسلامی دنیا کے لوگوں نے مغربی منصوبوں کے خلاف کہ جس کا ہدف عوام کو غلام بنانا تھا، مزاحمت کے محور کی صداقت کا مشاہدہ کیا ہے۔
فلسطین کو فراموش کر دیا گیا اور عرب مقبوضہ فلسطینی سرزمین کے ایک حصے کو بھی آزاد نہ کروا سکے، لیکن آج انقلابِ اسلامی کی برکت سے فلسطینی مزاحمت نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے میدان میں اپنی شرائط منوائیں؛ غزہ میں جنگ بندی فلسطینی مزاحمتی محور کی شرائط پر ہوئی، یہ ایسی چیز ہے کہ جس کے لیے انقلابِ اسلامی اور اس کی الٰہی قیادت نے کوشش کی۔
ناانصافی، غربت اور جبر کا شکار ملک نائجیریا بھی دنیا کے مظلوموں کے حامی انقلابِ اسلامی کے زیرِ اثر مغربی نظام اور اس کے قبضے کے آلہ کاروں کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ بن گیا۔
اگر انقلابِ اسلامی کامیاب نہ ہوتا تو عرب شہروں کی سڑکیں غاصب صیہونی رہنماؤں کے نام سے منسوب ہوتیں
آخر میں کہنا چاہوں گا کہ اگر خدائے بزرگ و برتر نے اس مبارک اسلامی انقلاب کے ذریعے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو آج ہمارے تمام عرب اور اسلامی شہروں میں سڑکیں صیہونی حکومت کے قائدین کے نام سے منسوب ہوتیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور انقلابِ اسلامی ایران کی قیادت سے ہماری سڑکیں اور دارالحکومتیں ہمارے ان شہداء کے ناموں سے منسوب ہیں کہ جنہوں نے اسلامی اصولوں کے دفاع کے لیے قیام کیا تھا؛ خداوند متعال اور انقلابِ اسلامی ایران کی قیادت کا شکریہ کہ جس نے مشرق اور مغرب کے مظلوموں کی حمایت کی۔
آپ کا تبصرہ