از قلم: محترمہ ڈاکٹر مسرور صغریٰ
اب قیصر و کسریٰ کا یہاں ذکر ہی کیا ہے
کونین کا ہر نقش ترا نقش صفا ہے
نرمی ترے لہجے کی ہے قلزم کی جبیں پر
ہر موج میں گم تیری رہائش کا پتہ ہے
خورشید جہاں تاب رہا تیرے شرر سے
پھر شام ڈھلے تجھ سے ہی ہمرنگ حنا ہے
سب سائے شجر کے تری رحمت کے ہیں سائے
اس سائے میں سرشار مرا قلب رہا ہے
عالم میں ازل سے ہی گلستاں کا مقدر
تیرے رخ گلنار سے سر سبز رہا ہے
شیرینی لب سے ہوئے خوش ذائقہ میوے
قائم سے زمانہ گل گلزار ہوا ہے
جلوہ ترے ادراک کا سیمین قمر میں
بحرین ترے فہم کی خوشبو سے سجا ہے
کل ضرب یداللہ کا وارث یہ بنے گا
نرجس تری آغوش میں جو کھیل رہا ہے
نرجس کے چمن میں ہے گلِ طور فروزاں
اس نور سے آراستہ خود عرش خدا ہے
کب ہوگا اجالا شہ مرداں کے قمر سے
یہ راز بھی افلاک کے تاروں میں چھپا ہے
بس لمحہ امداد ہے آجائیے مولیٰ
مقتل میں شہیدوں کا لہو بول ریا ہے
چودہ کی مودت کا ہے یہ آئینہ صغریٰ
پیشانی پہ سجدے سے جو ہالا سا بنا ہے
از قلم: محترمہ ڈاکٹر مسرور صغریٰ
آپ کا تبصرہ