شاعر: مولانا جوہر عباس خان رنوی
آئیے وادئ مدحت کا سفر ہوجائے
ایک رات اور عبادت میں بسر ہوجائے
شبِ ہجراں ہے مجھے چین سے رونے دینا
چشمِ محروم کی زینت ہے کہ تر ہوجائے
ہم کہاں دید کے قابل جو بلائیں ان کو
وہ تو کہہ سکتے ہیں آ ایک نظر ہوجائے
تم نہ آو مگر اتنا تو ہمیں ہے معلوم
تم اِدھر فیصلہ کرلو تو اُدھر ہوجائے
مصلحت ہوگی کوئی ورنہ جو آنا چاہو
حرمُ اللہ کی دیوار میں در ہوجائے
دل کا وہ حال کہ انکھوں کو پتا تک نہ چلے
سامنے سے اگر عیسی کا گزر ہوجائے
سوچا ہے خط کو میں اس بار لکھوں اشکوں سے
عرضِ احوال بہ اندازِ دٍگر ہوجائے
لکھ رہا ہوں میں عریضہ بھی تو اس کو جس کو
دل بھی خاموشی سے دھڑکے تو خبر ہوجائے
میں تو کہہ دیتا ہوں دنیا سے وہ آتے ہوں گے
آپ سمجھیں گے کوئی بات اگر ہوجائے
ساتھ میرے شبِ غم پر بھی عنایت ہوگی
رخ سے زلفیں جو ہٹا دو تو سحر ہوجائے









آپ کا تبصرہ