از قلم: ڈاکٹر مسرور صغریٰ
لگی ہے فرق علی پہ ضربت لہو مصلے پہ بہہ رہا ہے
بلک بلک کر ہے محو گریہ وہی جو غمخوار شہہ رہا ہے
غریب بابا کو رورہی ہے پچھاڑیں کھا کر بتول زادی
زمین داور لرز رہی ہے گہن کی صورت میں مہ رہا ہے
ہے زہر سارا بدن میں اترا بجز دعا کے نہیں ہے چارہ
نگاہ پر غم میں بھر کے آنسو حسن سے جراح کہہ رہا ہے
کہا یہ غازی نے میرے بابا جدا میں ہوکے نہ جی سکوں گا
خدا ہے شاہد سکوں سے یہ دل پدر کی قربت میں رہ رہا ہے
حرم میں شورو فغاں ہے برپا بنا ہے غازی علی کا صدقہ
حصار کرکے شہہ نجف کا زباں سے صد شکر کہہ رہا ہے
جو کر رہا ہے تڑپ کے گریہ علی کا بیٹا حسین ہے وہ
بچھڑ کے مادر سے کمسنی میں غم یتیمی بھی سہہ رہا ہے
جنازہ کاندھوں پہ لے کے حیدر کا دیکھو حسنین جارہے ہیں
ملک فرشتے وہ جن و انساں کے خون آنکھوں سے بہہ رہا ہے
جہا ں سے رخصت وہ لے رہا ہے جو بیکسوں کا حبیب ٹھہرا
فضا میں ہر سو ہے شور برپا ستونِ اسلام یہ رہا ہے
شہید راہ خدا ہوئےہیں ہمارے مشکل کشاء وہ صغریٰ
ہزار لعنت بر ابن ملجم قلم یہ رو رو کہ کہہ رہا ہے
آپ کا تبصرہ