۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مجتبیٰ علی شجاعی

حوزہ/ انقلاب ایک الٰہی اور کربلائی انقلاب ہے جس نے دنیا بھر کے تمام مظلوموں و مستضعفوں خواہ وہ کسی بھی مسلک یا ملت سے تعلق رکھتے ہو میں امید کی کرن پیدا کی اور ظلم کے کاشانوں کو ہلایا۔آج 43سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ انقلاب بڑی آب وتاب کے ساتھ ترقی کے منازل طے کررہا ہے ۔اور دنیا کے کونے کونے میں اس انقلاب کی کرنیں پھوٹ پڑی ہیں ۔

تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی

حوزہ نیوز ایجنسیتاریخ کی ورق گردانی اور متعدد آثار قدیمہ کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی تہذیب کئی ہزار سال قبل مسیح پرانی ہے۔اس سرزمین پر کئی قدیم اور تاریخی تہذیبیں پھل پھول چکی ہے اور بالآخر مرجھا کر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ ایرانی تاریخ روز اول سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ۔جس کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔کلی طور پر ایرانی تاریخ دوحصوں میں تقسیم ہے قبل از اسلام اور بعد از اسلام ۔ قبل از اسلام ایرانی تاریخ تین حصوں پر مشتمل ہے:آریاوں سے پہلے کی تاریخ ،آریاؤں کی تاریخ اورقدیم ایران کی تاریخ۔
آریاؤں سے پہلے ایرانی تاریخ میں مختلف تہذیبوں کا تذکرہ ملتا ہے ۔کاسی تہذیب ،شہر سوختہ کی تہذیب ،جیروفت تہذیب اور لام تہذیب وغیرہ ۔ یہ مختلف نسلی گروہ ایران کے مختلف علاقوں میں رہتے تھے ان تہذیبوں میں لام تہذیب سب سے بڑی تہذیب مانی جاتی ہے۔دوسرا دور آریاؤں کا دور دورہ تھا ان کا اصل وطن بحیرہ اسود سے لیکر کرسیہوں اور جیہوں ندیوں کے آس پاس تھا ۔بعد میں کچھ آریائی ایران و ہندوستان اوریورپ کی طرف ہجرت کرگئے ۔آریائی ایران کی سرزمین میں داخل ہونے کے بعد مختلف قبیلوں میں بٹ گئے ان قبیلوں میں سے اہم قبیلے مادھا،پارتھی اور فارسی تھے۔ماد قبیلے سے ہی قدیم ایران کی تاریخ شروع ہوئی جو ساسانی دور کے خاتمے یعنی ایران پر عربوں کی فتح تک رہی۔یہ دور سلوکیوں ،پارتھیوں اور ساسانیوں پر مشتمل تھا ۔
ایران پر عربوں کی فتح کے بعد اس سرزمین پر دین اسلام پھیلا ۔عربوں نے ایرانی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑدئے ۔اس دور میں سماجی ،مذہبی اور سیاسی میدانوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔اپنے ملک میں طبقاتی تفریق سے مطمئن نہ ہوکر ایرانیوں نے اسلام قبول کیا اور اسے پھیلانے کی کوشش کی۔بعد از اسلام اس سرزمین پر بھی امویوں اور عباسیوں کا دبدبہ رہا ۔لیکن تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانیوں نے اموی اور عباسی حکومت کے خلاف اپنی مخالفت نہ چھپائی بلکہ آزاد تحریکیں شروع کی۔اسی کا ثمرہ یہ نکلا کہ عباسی بادشاہ مامون کے کمانڈر طاہر زوالیمین نے سرزمین ایران پر طاہری سلطنت کی داغ بیل ڈالی ۔عرب حملے کے بعد یہ ایران کی پہلی آزاد حکومت تھی جس کا دارالخلافہ نیشا بور تھا۔
طاہری دور کا خاتمہ یعقوب لیس صفار کی ہاتھوں ہوا اس طرح سے صفاری دور کا آغاز ہوا ۔تاریخ دانوں کے مطابق طبرستان اور دیلام میں علوی حکومت قائم ہوئی ۔علوی امام حسن علیہ السلام کے اولاد میں سے تھے ۔اس کے حکمران داعی کبیر اور ناصر کبیر تھے ۔آخر کار سامانیوں کے ہاتھوں اس حکومت کو تباہ کردیا گیا۔سامانیوں کے بعد بالترتیب زیاریاں ،البوحید ،غزنوی ،سلجوقی،خوارزمشاہی اور منگولوں کی حکومتیں قائم ہوئی ۔ان میں سے کچھ چھوٹی اور کچھ بڑی سلطنتیں تھیں ۔غزنوی دور بھی تاریخی اہمیت کا دور کہا جاتا ہے غزنویوں نے تاریخ ایران میں اپنے آپ کو غازیوں اور مسلمان جنگجوؤں کے طور پر معارف کرایا ۔
منگولوں کے ابتدائی دور میں ایران تباہ ہوگیا ۔انہوں نے قتل وغارتگری کے تمام حدوں کو پار کیا۔اس کے بعد ہلاکو خان نے ایلخانیان حکومت کی بنیاد رکھی۔ایلخانیوں کے بعد چنگیز خان کے رشتہ دار تیمور لنگ نے تیموری شہنشاہیت کا آغاز کیا۔تیموریوں کے بعد صفوی دور کا آغاز ہوا ۔تاریخی اعتبار سے صفوی دور ایران کا سنہری دور تھا یہ دور1501تا 1732عیسوی تک رہا ۔طول تاریخ میں پہلی بار شیعہ مذہب کو ایران میں سرکاری مذہب کے طور پر معارف کرایا گیا۔شیعہ مکتب فکر دینی سیاسی اور سماجی خصوصیات کے ساتھ ایران کے اتحاد اور آزادی کا باعث بنا جس نے سلطنت عثمانیہ کے مقابلے میں اپنے قومی تشخص کو قائم ودائم رکھا۔یہ دور ایران کی تاریخ میں سیاسی اور مذہبی طاقت کے طور پر اُبھرنے میں کامیاب رہا۔اسکے علاوہ ایران سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ بن گیا۔
افغانوں نے صفویوں کا خاتمہ کردیا۔نادر شاہ افشار نے افغانیوں کو شکست دیکر ایران پر غلبہ پالیا۔اور افشاری حکومت قائم کی ۔افشاریوں کے بعد قیدیوں نے اقتدار حاصل کیا جنہوں نے شہر شیراز کو اپنا دارالخلافہ بنایاجس کے بعد زندیوں کا دور آیا اور زندیوں کے بعد قاچاری دور کا آغاز ہوا قاچاری دور کا بانی آقا محمد خان قاچار تھا اور اس دور کا آخری بادشاہ احمد شاہ قاچار تھا انہوں نے تہران کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔قاچاریوں نے 129سال تک حکومت کی۔نصیر الدین شاہ قاچار ایران کی تاریخ کا سب سے نالائق بادشاہ تھا جس نے اپنے50سالہ دور حکومت میں ایران کو تباہی کی اور دھکیل دیا۔اس دور میں دنیا کی تہذیب وثقافت عروج پر تھی لیکن یہ نالائق بادشاہ خواتین کے ساتھ گپ شپ اور مونچھیں ماپنے میں اپنا وقت صرف کررہا تھا۔نصیر الدین شاہ کے بعد فتح علی شاہ قاچار نے بھی یہ روایت برقرار رکھی ۔قاچاریوں کی نالائقی کے باعث روسیوں نے ایران کے بیشتر حصوں پر قبضہ کیا ۔اس منحوس دور میں ایران میں برطانیہ اور روس جیسی استعماری طاقتوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ۔خراسان کو بھی ایران سے الگ کردیا گیا۔ان پیش رفتوں کے نتیجے میں ایران میں تمباکو کی تحریک ،تحریک مشروطیت جیسی متعدد تحریکوں کا آغاز ہوا ۔یہ تحریکیں بالآخر کامیاب ہوگئی اور قاچاری سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔
رضا خان کبیرجو ایک فوجی آفیسر تھا نے اقتدار سنھبالا اور پہلوی خاندان کے قیام کا اعلان کیا ۔یہ سرزمین ایران کا آخری شاہی خاندان تھا جس کا آغاز 1925ء میں رضا شاہ کبیر کی تخت نشینی سے شروع ہوا اور 1979ء میں اس وقت خاتمہ ہوا جب اسلامی انقلاب آب وتاب کے ساتھ ایرانی افق پر نمودار ہوا۔اورا یران میں ملوکیت کی منحوس تاریخ اور پرانی روایت کا بھی خاتمہ ہوا۔پہلوی حکومت دو بادشاہوں باپ بیٹے رضا شاہ پہلوی اور محمد رضا شاہ پہلوی پر مشتمل تھی ۔اس دور میں ایران میں مغربی طرز معاشرت پھل پھول چکا تھا،مغرب کے بیہودہ تہذیب نے ایران کا معاشرہ بُری طرح سے آلودہ کیاتھا۔ایک ایسے منحوس ماحول کو پروان چڑھایا گیا تھا جس میں اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا ۔حجاب کو عیب اور باپردہ عورت کا مذاق اڑایا جارہا تھااور علماؤں کی توہین کی جارہی تھی۔فحشیات ومنکرات ،بدیوں اور برائیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام تک بھی نہیں لیتا تھا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی ایران ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن تھا ۔ایران کے قدرتی خزانوں پر بیگانوں کا قبضہ تھا ۔تیل ایران کا تھا اور قیمت سامراج کے ہاتھوں میں۔خواتین ایران کی تھیں لیکن ان کا لباس ان کا رہن سہن مغربی تھا۔مغربی طرز زندگی اپنانے والوںکو خوب پذیرائی مل رہی تھی۔شاہ کے خلاف زبان کھولنے والوں کو ساواک جیسی خوفناک اور خونخوار ایجینسی کے عذاب وعتاب کا شکار ہونا پڑتا تھا ۔رضا شاہ کے بعد محمد رضا شاہ نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھاجس نے ظلم وجبر پر استوار بادشاہت کے تحفظ کے لئے ساواک کابھر پو مدد لیا۔
شاہی فورس اور ساواک کے ذریعے ایران کے آزاد ی خواہ عوام اور علمائے کرام پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے ۔لیکن ان تمام اذیتوں ،تکالیف ،مسائل و مشکلات کے آگے حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی ؒ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹے رہے ۔جنہوں نے ایران کے غیور،باشعور اوربہادر عوام کی ترجمانی کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا ۔امام خمینی ؒ نے رضائے رب اور ستم زدہ محکوم و مجبور ایرانی عوام کی آزادی کے لئے اپنے جان کو بیچ ڈالا ۔نہ گولیوں کا پرواہ کیا اور نہ ہی آہنی سلاخوں کی فکر کی بلکہ مردانہ وار طریقے سے باطل اور طاغوتی نظام کے خلاف قیام کا اعلان کیا۔طاغوت کو علی الاعلان للکارا اور اسلامی نظام حیات رائج کرنے کی ٹھان لی۔
امام خمینی ؒ نے مدبرانہ اور ماہرانہ انداز میں آزادی خواہ عوام کی قیادت سنھبالی جس کے لئے آپ نے18سالہ جلاوطنی کو ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا ۔اور ملکی جیلوں میں بھی صبر وتحمل کے ساتھ سختیاں اور اذیتیں برداشت کی ۔علمائے کرام اور غیور نوجوانوں کی اس انداز سے سیاسی رہنمائی کی کہ فوجی چھاونی میں قائم شاہی محل میں کٹھ پتلی حکمرانوں نے بھونچال کے جھٹکے لگاتار محسوس کئے۔تاریخ گواہ ہے کہ امام خمینی ؒ نے کسی بھی ملکی یا غیر ملکی یانیورسٹی میں پولٹیکل سائنس یا اس کے مساوی مضمون میں ڈگری حاصل نہیں کی تھی نہ ہی بظاہر کھبی کسی سیاست میں حصہ لیا تھا لیکن سرزمین ایران پر سیاست کی ایسی جھلک دکھائی جس سے دنیا بھر کے نامور سیاست دان اور سیاسی ماہرین انگشت بہ دندان رہ گئے۔امام خمینی ؒ خداداد صلاحیتوں کے مالک ایک عظیم الشان رہبر رہنما و قائد تھے ۔آپ کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں کامیابی کے راز مضمر ہے ۔
ایران میں اگرچہ قاچاری عہد سے ہی آزادی کی فضا گردش کررہا تھا تاہم اس تحریک کا باضابطہ آغا ز ایرانی سال 1341میں ہوا جب حکومت کے مذہب مخالف رویے کے خلاف امام خمینی ؒ اور دیگر علمائے کرام نے احتجاج کیا پھر اگلے سال امام خمینی ؒنے عاشورہ کے موقعہ پر مدرسہ فیضیہ میں ایک ولولہ انگیز خطاب کیا اور ظالم شاہی حکومت کے خلاف زوردار احتجاج کیا جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔اس واقعہ کے بعد 6جون 1963کو لوگوں نے احتجاج کیا جس میں بہت سارے مظاہرین مارے گئے۔اگلے سال4نومبر کو امام راحل ؒ نے پھرحکومتی تشدد ظلم وجور اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیا جس کے بعد آپ کو جلا وطن کردیا گیا ۔امام راحل امام خمینی ؒ نے جلاوطنی کے ایام میں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھی اور قوم کی ترجمانی جاری وساری رکھی۔جس وجہ سے امام خمینیؒ کو عراق اورپھر ترکی سے بھی نکالا گیا۔
درحقیقت اس وقت امت مسلمہ پر سامراج کا غلبہ تھا اور سامراج کی من مرضی کے مطابق امت مسلمہ کا نظام چل رہا تھا۔لیکن مرد آہن امام خمینیؒ نے سامراجی غنڈہ گردی کو چلینج کیا ۔آپ نے عوام بالخصوص نوجوانان ملت کی ہمت افزائی کی ۔خفتہ ضمیروں کو ایک ایک کرکے جگادیا اور مردہ ضمیروں میں نئی روح پھونک دی۔جس سے عوام میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہوگئی۔پہلوی کارندوں خاص طور پر ساواک کے قتل عام ظلم وتشدد اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہوا جو رفتہ رفتہ تمام شہروں تک پھیل گیا۔لیکن روز بروز سڑکوں پر عوامی سیلاب امڈتا آیا ۔عوام نے امام خمینی ؒ کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے مارشل لاکو پیروں تلے روندھ ڈالا۔ایرانی فضا اللہ اکبر ،خمینی رہبر کے نعروں سے گونج اٹھا ۔نالائق اور ظالم پہلوی کومجبوراً راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔
2فروری1979کو امام خمینی ؒ پیرس سے واپس تشریف لائے طول تاریخ کا پہلا اجتماع تھا مہر آباد ہوائی اڑے سے بہشت زہرا تک کروڑں لوگوں نے اپنے محبوب قائد رہنما و رہبر کا فقید المثال استقبال کیا۔اور 11فروری کے دن آزادی کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ ایرانی افق پر نمودار ہوا اور ایران پر حکومت الٰہی قائم ہوئی یوں ہزار وں سالہ شہشاہیت کا قلعہ زمین بوس ہوگیا۔
امام خمینی ؒ علیہ الرحمہ نے انقلاب اسلامی کے کامیابی کے بعد فرمایا کہ’’ہم نے جو خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے یہ ایک آسمانی ہدیہ ہے ایک الٰہی ہدیہ ہم تک پہنچا ہے ہمارا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں ،اگر ہم نے اس کی حفاظت نہیں کی تو شکران نعمت نہیں کیا۔بلکہ کفران نعمت کیا،لہذا ہمیں چاہئے کہ اس کی حفاظت کریں ۔‘‘(صحیفہ امام جلد ۱۲،ص۳۷۹)۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس انقلاب کے خلاف عالمگیر سطح پر سازشوں اور پروپیگنڈوں کا سلسلہ شروع ہوا۔اس انقلاب کو کھبی شیعہ انقلاب کا نام دیا گیا ۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ انقلاب ایک الٰہی اور کربلائی انقلاب تھا جس نے دنیا بھر کے تمام مظلوموں و مستضعفوں خواہ وہ کسی بھی مسلک یا ملت سے تعلق رکھتے ہو میں امید کی کرن پیدا کی اور ظلم کے کاشانوں کو ہلایا۔آج 43سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ انقلاب بڑی آب وتاب کے ساتھ ترقی کے منازل طے کررہا ہے ۔اور دنیا کے کونے کونے میں اس انقلاب کی کرنیں پھوٹ پڑی ہیں ۔
بقول امام خمینی ؒ ’’انقلاب اسلامی یک انفجار نور بود‘‘ یعنی اسلامی انقلاب نور کا دھماکہ تھا ۔اس انقلاب نے دنیا بھر کی سیاست پر اپنے گہرے نقوش چھوڑدئے۔آج کے دور میں بھی اس انقلاب کے خلاف طاغوتی ،سامراجی اور ان کے چیلے مختلف سازشیں حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں ۔لیکن طاغوت کی یہ مکاری اور چالبازی جمہوری اسلامی ایران کی بابصیرت قیادت کے سامنے ناکام اور بے نقاب ہورہی ہے۔یہ انقلاب اسلامی کی برکات ہے کہ آج الحمد للہ ایران کے سامنے دنیا کی نام نہاد سپر پاور طاقتیں ،طاغوتی اور استعماری طاقتیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی ہیں ۔اور میڈل ایسٹ میں طاغوتیت ،سامراجیت اور استعماریت کا جنازہ نکل رہا ہے ۔اسلامی انقلاب کے برکات سے امت مسلمہ بالخصوص مظلومین ومستضعفین جہاں سر اٹھا کر چل رہے ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نصرت وکامیابی کے جھنڈے گاڑرہے ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران کی 43ویں سالگرہ پر تمام امت مسلمہ بالخصوص ملت ایران کی خدمت میں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد عرض ہے ۔اس عظیم الشان اور پرمسرت موقع پر فقید المثال قائد رہبر ورہنماحضرت آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی ؒ کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ولی امر المسلمین بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای مد ظلہ العالی کی بابصیرت اور بے باک قیادت کو مزید کامیابیوں اورسرفرازیوں سے نوازیں اور آپ کی مدابرانہ قیادت تادیر باقی رہے۔ (آمین)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .