حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؍معاون مدیر مجلہ سفینہ النجاة دہلی، ڈائرکٹر ادارہ نشر پیام آل محمد(ص) کلکتہ جناب مولانا سید محمد مجتبیٰ علی رضوی نے حوزہ نیوز ایجنسی سے اپنی گفتگو میں کہا اہل بیت رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ پر مصائب کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا ہے جب کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ نے اپنے اہل بیت(ع) سے محبت اور ان کا خاص خیال رکھنے کی تاکید فرما ئی تھی اور اپنے بعد کے لئے انہیں مرکز ہدایت قرار دیا تھا اس کے باوجود امت مسلمہ نے اہل بیت رسول علیہم السلام پر ظلم ڈھانے کا کوئی موقع خالی نہیں جا نے دیا ، بلکہ مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے موجودہ دور میں'' جنت البقیع'' کی ویرانی اس کی زندہ مثال ہے ۔
معاون مدیر مجلہ سفینہ النجاة دہلی نے کہا، جنت البقیع مدینہ کا قدیمی قبرستان ہے جو اسلام سے پہلے سے ہی اہل یثرت کے لئے قبرستان تھا اسلام کے ظہور کے بعد آپ ۖ نے وہاں مسلمانوں کو بھی دفن کرنے کی اجازت دے دی اس میں صدر اسلام کی تمام نمایاں ہستیاں سپرد خاک ہیں، جن میں سب سے اہم شخصیت دختر نبی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ہے آپ کے علاوہ امہات المومنین ، ازواج رسول اکرم ۖ، اہل بیت نبی ۖ، جلیل القدر صحابہ ئے کرام، صحابیات ،ائمہ معصومین ، ائمہ حدیث، ان کے علاوہ کئی بزرگ علماء سب کی آخری آرامگاہ اور مزارات وہیں ہے ۔ ہر زمانے میں یہ قبرستان اپنی تاریخی حیثیت اور اسلام سے گہرے تعلق کی وجہ سے قابل احترام اور زیارت گاہ خاص و عام رہا ہے جسے ظالم سعودی حکومت نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول اپنے آقائوں کو خوش کرنے امت مسلمہ میں شگاف ڈالنے کے لئے کئی دھائی پہلے مسمار کر دیا۔اس پر بھی اکتفاء نہیں کی بلکہ اس کے بعد سے اب تک وہاں جا نے والے عقیدت مندوں کو بھی ان ویران قبروں پر حاضری اور فاتحہ خوانی و زیارت کی بھی اجازت نہیں ہے ، بلکہ جو بھی عقیدت و محبت و احترام سے ان قبروں کو دیکھتا ہے تو اسے وہاں تعینات پولیس سختی سے پیش آ تی ہے اور وہاں رکنے کی بھی اجازت نہیں دی جا تی ہے۔
ڈائرکٹر ادارہ نشر پیام آل محمد(ص) کلکتہ نے اپنے سفرِ حج کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بیان کیا، ۲۰۱۷عیسوی میں بغرض حج سر زمین وحی و قرآن میں حاضری کا شرف ملا اور جب یہ پتہ چلا کہ اس سفر میں سب سے پہلے مدینہ منورہ میں حاضری کا شرف ملے گا تو بہت سے جذبات دل میں امٹ نے لگے اور تمام تاریخ اسلام ایک بار نظروں سے گذر گئی ۔ مدینہ منورہ پہنچتے ہی بس میں بیٹھے بیٹھے نظر جب مسجد نبوی کے عظیم الشان مناروں پر نظریں پڑی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کتابوں میں پڑھی ہو ئی باتیں مجسم ہو رہی ہیں۔
ہو ٹل میں قیام کے بعد حاضری کے لئے مسجد نبوی پہنچا گنبد خضراء پر نظر پڑتے ہی جو دلی کیفیت تھی وہ قابل بیان نہیں ہے بس یوں لگا کہ جیسے بارگاہ رسالت میں حاضرہوں اور اس خیال کے آ تے ہیں نظر نفس رسولۖ، داماد پیغمبر ۖ، مولائے کائنات ، اہل بیت نبیۖ ، حسنین کریمین کو ڈھونڈنے لگی کہ اچانک نظر ویران ''جنت البقیع ''پر گئی۔ یکایک دل دھک سے ہو گیا، روضہ رسول اتنا عالیشان اور نبی کی اکلوتی بیٹی کی قبر بالکل ویران جہاں خاک اڑ رہی ہے نہ کو ئی سایہ نہ سائبان، نہ کو ئی نگہبان نہ کوئی پاسبان، نہ کوئی چراغ جلانے والا، نہ کوئی فاتحہ خوانی کرنے والا، دن کی دھوپ اور رات کی اوس اور ہر طرف ویرانی، اداسی اور غربت کا گھیرا۔ مسجد نبوی کی زیارت سے فارغ ہو کر گریا کناں بقیع کی طرف دوڑا لیکن دروازہ پر قفل دیکھا پتہ چلا کہ صرف نماز صبح کے بعد حاضری ممکن ہےاب شدت سے نماز صبح کا انتظار تھا ۔
مولانا موصوف نے جنت البقیع کی زیارت کے بارے میں اپنے دلی تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، صبح ہوتے ہی بقیع کی زیارت کو چلا جیسے جیسے ویران بقیع کے قریب ہورہا تھا ویسے ویسے دل تڑپ رہا تھا نبی کریم ۖ کے جوار میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی بیٹی جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کیا حال کیا امت نے جسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ اپنا ٹکڑا کہتے تھے اس جگر گوشہ ٔ رسول پر امت نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے۔بقیع کے دروازے سے اندر گیا تو پتہ چلا کہ اب اولاد رسول ۖکی قبروں کے قریب بھی کوئی نہیں جا سکتا دور سے ہی دیکھ کر زیارت کی وہاں یہ ظالم سپاہی کسی کو رکنے بھی نہیں دیتے ہیں ۔ ایک ویران گوشہ میں اولاد رسول ۖ حضرت امام حسن مجتبیٰ ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کی قبریں ہیں جو پولیس کے حصار میں ہیں۔ جہاں کو ئی قریب بھی نہیں جا سکتا ہے ۔حرم رسول کے آس پاس نظریں دوڑائیں تو ایک سے بڑھ کر ایک عمارت ملی جو جدید دور کی ترجمانی کرتی ہیں لیکن ویران بقیع کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وقت وہیں چودہ سو سال پہلے رکا ہوا ہے جب خانہ وحی پر آ گ لگائی گئی تھی اس وقت بھی کوئی یہ تک کہنے والا نہیں تھا کہ ایسانہ کرو یہ نبی کی بیٹی کا گھر ہے ویسے ہی آج مزارات کی ویرانی پر بھی اہل عرب خاموش تھی امت مسلمہ میں خاموشی تھی کوئی بولنے والا نہیں تھا کہ یہ بنت نبی کی قبر ہے اولاد نبی کی آخری آرامگاہیں ہیں ان کو ویران نہ کرو۔
انھوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا، اگر کل سیدہ فاطمہ زہراء کا گھر نہ جلایا ہوتا تو آج بقیع بھی ویران نہ ہوئی ہو تی، سعودی حکومت کے ذریعہ ''جنت البقیع '' کا انہدام ایک سنگین جرم اور شان رسالت میں ایک بڑی گستاخی اور نا قابل معافی گناہ ہے، اس لئے کہ جتنے بھی مزارات خاندان رسالت سے تعلق رکھتے تھے ان سب کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا، اور چن چن کر انہیں منہدم کیا گیاہے ۔ سعودی حکومت کے عیاش شہزادوں کو اپنے گدی اور دولت کا اتنا غرور تھا کہ انجام سے بے بہرہ ہو کر انہوں نے امریکہ کی ایماء پر اس ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ کروٹ ضرور لیتا ہے اب وہی وقت آ رہا ہے جب پوری دنیا اس جرم کے خلاف سراپا احتجاج اور اس غم میں غمگسار ہے۔
مولانا موصوف نے دعایہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا،بار الہٰا! جنت البقیع کی جلد از جلد تعمیر کی راہ فراہم فرما ! تجھ کو تیرے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ کا واسطہ اور بقیع کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا۔ آمین