۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 390085
28 اپریل 2023 - 15:00
ویران جنت البقیع

حوزہ/ یہ کیسا اسلام ہے کہ اپنے ہر شہر میں آثارِ قدیمہ کو خصوصی طور پر محفوظ کیا جائے، اپنے قدیمی کچے مکانوں سے رنگ روغن پھیکے نہ پڑنے دئیے جائیں مگر آقا کریمؐ کی بیٹی کی قبر پر چند پتھر رکھ دئیے جائیں اور اس قبر کی طرف غور سے دیکھنے والوں پر کوڑے برسائے جائیں۔

تحریر: علی اصغر

حوزه نیوز ایجنسی | نجران تقریباً چار ہزار سال پرانا شہر ہے، یہ پہلے یمن کا حصہ تھا پھر سعودی حکومت نے اسے سعودیہ میں شامل کرلیا، یہ یمن بارڈر پہ واقع ہے، نجران کے علاقہ الاخدود میں محکمہ آثارِ قدیمہ نے ایک ایریا کے اردگرد کانٹے دار تار لگا رکھی ہے، اس ایریا کے بارے مشہور ہے کہ ہزاروں سال پہلے یہاں کوئی قوم آباد تھی جن کے آثار ابھی تک باقی ہیں، بڑے بڑے پتھروں پر ہاتھی و گھوڑے کی تصاویر بنی ہیں، مٹی و پتھر کے ٹوٹے ہوئے برتن پڑے ہیں اور کہیں کہیں گھروں کے نشان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، سعودی حکومت نے اسےمحفوظ کر رکھا ہے تاکہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو تاریخ کے بارے معلوم ہوسکے۔

جدہ تقریباً تین ہزار سال پرانا شہر ہے، اسے جدہ اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں اماں حواء دفن ہیں ان کی قبر شہر کے قدیمی علاقہ بلد کے ایک قبرستان میں ہے، جدہ ساحل سمندر پر واقع ایک بہت بڑا شہر ہے، شہر کے قدیمی حصہ کو حکومت کی خاص توجہ حاصل ہے، پرانے گھروں کو خصوصی نگہداشت میں رکھا ہوا ہے، انٹرنیشنل سٹی ہونے کی وجہ سے غیر ملکی سیاح اس ایریا کو خاص طور پر دیکھنے آتے ہیں، یہاں ایک قدیمی مارکیٹ بھی ہے، محکمہ آثارِ قدیمہ نے بلد کو بہت خوبصورت بنایا ہے۔

جدہ کے ساحل پر آلِ سعود کے محلات کی ایک لمبی قطار بھی ہے، سمندر کے اندر بھی ایسے گھر بنائے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرانی کے ساتھ رشک بھی آتا ہے۔

ریاض سعودیہ کا دارلخلافہ ہے, مکہ کی طرف نکلتے ہی ہمیں کچے مکانوں کا ایک چھوٹا سا گاوں نظر آتا ہے، ان کچے مکانوں پر خوب نمود و نمائش کی گئی ہے، قدیمی ہونے کے باوجود ان کی مرمت کے لئے باقاعدہ بلدیہ کو خصوصی ہدایات دی جاتی ہیں، یہ کچے مکان کسی نبیؑ یا صحابہ کرامؓ کے گھر نہیں ہیں بلکہ یہ آلِ سعود کا آبائی گاوں ہے بادشاہت ملنے کے بعد وہ ان کچے مکانوں سے ہجرت کرکے محلات میں جا بسے ہیں۔

مدینہ منورہ سے ینبع کی جانب نکلیں تو قدیمی ینبع روڈ پر پہاڑوں میں پتھروں سے بنے مکان نظر آتے ہیں، اور یہ ہزاروں سال پرانے گھر ہیں، مگر انہیں ضائع نہیں ہونے دیا گیا، محکہ آثارِ قدیمہ نے خصوصی نگہداشت کی ہے اور یہ سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز ہیں۔

سعودیہ میں ہر شہر، ہر گاوں میں آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا ایریا ضرور ملے گا جو قدیمی ہوگا اور اس ایریا کو سنبھال کر رکھا گیا ہوتا ہے کیوں کہ وہ ان کے بزرگوں کی نشانیوں میں سے ہوتے ہیں، البتہ آپ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ جائیں تو جو مقام یا مکان اہل بیتِ رسولؐ یا صحابہ کرامؓ سے منسوب ہوگا وہ یا تو گرا دیا گیا یا اس پر اتنا سخت پہرہ لگا دیا گیا کہ کوئی زائر اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا۔

8 شوال 1926 سے قبل ترکوں نے جنت البقیع میں صحابہ کرامؓ اور بلخصوص نبی پاکؐ کی بیٹی اور نواسوں کی قبور پر احترامً گنبد بنا رکھے تھے، مسجد نبویؐ میں آج بھی آئمہ اہل بیتؑ بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے ہیں اور یہ ترکوں کی آلِ رسولؐ سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، ترکوں کے بعد جب آلِ سعود نے حجاز کو سعودیہ بنایا اور وہاں برطانوی اسلام رائج ہوا تو اہل بیتؑ رسولؐ اور اصحابِ رسولؓ کی قبور کو مسمار کردیا گیا کیوں کہ ان کے بقول یہ بدعت اور گناہ ہے، اس وقت سے لے کر آج تک دنیائے اسلام میں ہر مسلمان خصوصاً شیعہ مسلمان آٹھ شوال کو یومِ انہدام جنت البقیع پر احتجاج کرتے ہیں، اور آلِ سعود سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئمہ اہل بیتؑ اور صحابہ کرامؓ کی قبور کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔

حیرانی کی بات ہے کہ یہ کیسا اسلام ہے کہ اپنے ہر شہر میں آثارِ قدیمہ کو خصوصی طور پر محفوظ کیا جائے، اپنے قدیمی کچے مکانوں سے رنگ روغن پھیکے نہ پڑنے دئیے جائیں مگر آقا کریمؐ کی بیٹی کی قبر پر چند پتھر رکھ دئیے جائیں اور اس قبر کی طرف غور سے دیکھنے والوں پر کوڑے برسائے جائیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .