تحریر: سید ابراہیم حسین، دانش حسینی
حوزہ نیوز ایجنسی | ۱۹۷۷ میں جنرل ضیاء الحق پاکستانی فوج کی مدد سے سپاہِ صحابہ اور متحدہ قومی موومنٹ کے پر تشدد طریقوں سے سیاسی محاذ پر قابو پا چکے تھے۔
جسکے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرنے کے ساتھ ہی اصلاح قوانین کے نام پر نہ صرف پاکستانی نفرتی اداروں کو اکسیر بخشی بلکہ شدّت پسندی کو ایک قانونی نظام بھی دے دیا۔
جنرل کے دور میں مارشل لاء نافذ العمل ہونے کے باوجود شدّت پسند عناصر کی آتش فشاں تقریروں اور بیانوں پر ذرّہ برابر بھی اثر نہ ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں ۱۹۷۸ کے محرم میں لاہور میں آٹھ جبکہ کراچی میں چودہ عزادار شہید بھی کر دیے گئے۔
البتہ ان سیاہ کاریوں کے باوجود شہر آشوب میں ذرا چین کی سانس تب آئی کہ جب ۱۹۷۹ میں ایک شیعہ عالم دین آیت اللہ خمینی کی رہنمائی میں ایران میں انقلاب آیا اور مذہب تشیع کو ذرا عزت ملی اور پاکستانی عوام میں بھی اسلامی انقلاب کا جذبہ پیدا ہوا لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ اس جذبے کا فائدہ بھی جنرل نے اٹھایا اور ۱۹۸۰ میں نظام مصطفیٰ کے نام پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی اور زکوٰۃ و عشر نام کا آرڈیننس شیعہ فرقے پر تھوپ دیا جسے پھر اسلام آباد کے پارلیمان تک احتجاج ہونے پر مجبوراً ہٹانا بھی پڑ گیا۔
اور پھر اردن میں ہزاروں نہتے فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام کرنے اور افغان جہاد نامی تکفیری طالبانی مدارس کا نیٹورک بنانے والے جنرل ضیاء الحق بہت دنوں تک فرضی نقاب کو سنبھالے نہ رہ سکے اور انکے تخت اقتدار کی چولیں ہلنی شروع ہو گئیں۔
جسکے نتیجے میں جنرل کے اقتدار کے دورانیہ کو طولانی کرنے کے لیے ایک طرف سنی اکثریت کو شیعہ خطرے کا احساس کرایا گیا تو دوسری جانب تشیع میں اہل سنت برادری سے اتحاد نہ کرنے کے حامی، مرجعیت کے مخالف اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتے ذاکروں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ہی اخباری رجحانات کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا۔
دراصل مذہب تشیع پر ہوتا یہ ظلم بےحد خوفناک تھا کیونکہ اب دہشت گردی کو ایک سسٹم مل چکا تھا اور جنرل کی سیاست سے انگریزوں کے پھوٹ ڈالو راج کرو کے نظام کی بو آرہی تھی۔
اور پھر ببول کے درخت نے اپنے کانٹوں کا ایسا جال بچھایا کہ آس پاس موجود ہمسایوں اور اپنوں کی ہی جان پر بن آئی۔
جی ہاں!! اور پھر جنرل کے ذریعے عروج پائے طالبانی نیٹورک نے ایسا کہرام برپا کیا کہ روح کیا روح القدس بھی کانپ اٹھے۔
جی ہاں! اس دوران طالبان نے جب بھی کسی پاکستانی فوج کے غریب ملازم کو پکڑا تو سنی ہونے کی صورت میں گلا کاٹا تو شیعہ کو زندہ پتھر کوٹنے والی مشین میں پیر کی طرف سے دھکیل کر سر تک ہر ایک حصے کا قیمہ بنا دیا۔
افسوس صد افسوس! کہ مذہب کے نام پر بننے والے ملک میں خود اُسکے اپنے محفوظ نہ رہ پائے۔
اسی عرصے میں اہل سنت تنظیم کو اپگریڈ کرکے سپاہِ صحابہ کی شکل دے دی گئی۔
اور پھر شیعوں کے خون کو حلال سمجھنے والوں کو اسمبلی میں بٹھادیا گیا اور شیعہ علاقوں پر دیوبندی قبائل کے افغان مہاجرین کے ذریعے حملے ہونے شروع ہو گئے۔
اور اسی کڑی میں کوئیٹہ کراچی پاراچنار اور گلگت کے شیعوں پر جمکر حملے ہوئے۔
جسمیں ۱۹۸۱ میں پاراچنار کے قصبے صدہ پر ہوا حملہ افسوسناک ہے کہ جب کرم ایجنسی کے سارے دیوبندی قبائل نے اکجٹ ہوکر افغان مہاجرین کی مدد سے حملے کر دیے اور فلسطین کی طرز پر شیعوں کو بے دخل کر دیا۔
ویسے تو ہمیشہ سے ہی امیروں کے چراغوں کو ایندھن تو غریبوں کی خوابوں کی بستیوں کے جلنے سے ہی ملتا رہا ہے لیکن رحمت للعالمین کے مذہب میں مالک بن نویرہ کے قتل سے شروع ہوا مسلمانوں کے قتل عام کا یہ کربلائی آشفتہ منظر اشک کا ایک الگ دریا چاہتا ہے اور اسے تحریروں میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے لیکن پھر بھی میں اسے آئندہ کی قسطوں میں لانے کی سعی کرونگا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔