حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یوں تو ان دنوں پوری دنیا میں حکیم امت جناب مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی طاب ثراہ کی یاد میں مختلف علماء،دانشورانِ قوم اور مومنین تعزیتی جلسہ اور مجالس غم کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن اناؤ میں فعال علماء کے زیر نگرانی جس تعزیتی جلسہ اور مجلس غم کا انعقاد ہوا وہ اس اعتبار سے ممتاز نظر آتا ہے کہ اس میں حکیم امت کے علاوہ ایران کے نامور جوہری سائنسدان شہید محسن فخری کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ دو روز پر مشتمل اس تعزیتی جلسہ میں مختلف علماء اور اسکالرز نے اپنے تاثرات پیش کئے۔
۵ دسمبر کو پہلی مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سد مشاہد عالم رضوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر سید کلب صادق ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔آپ کا نظم و ضبط اور وقت کی پابندی خاصی شہرت رکھتی ہے۔واقعی عالم کو نہ اپنے خانوادہ کی فکر ہوتی ہے نہ اپنی ذات کی بلکہ اسے ملک و ملت کی ترقی کی فکر لاحق رہتی ہے۔
دوسرے دن کے پروگرام میں مولانا عابد رضا عرشی صاحب نے تعزیتی کلمات پیش کئے اور اسکے بعد جوان عالم مولانا سید حیدر عباس رضوی نے اپنے منفرد اندازمیں ڈاکٹر صاحب نیز شہید محسن فخری زادہ کے نقوش حیات کو بیان کیا۔
مولانا سید حیدر عباس نے اضافہ کیا کہ سورہ نحل میں خدا وند عالم نے حیات طیبہ کا تذکرہ کیا۔اس حیات طیبہ کے لئے پہلی چیز جو درکار ہے وہ ہے علم۔
ایک مسلم اگر علم سے دور رہے تو یہ زیب نہیں دیتا۔آج اسلام دشمن عناصر ہمارے علمی سرمایہ کو قتل کر رہے لیکن با بصیرت رہبر کی قیادت کو ہمارا سلام جنہوں نے علم کی تاکید کر کے یہ واضح کر دیا کہ تنہا علم وہ طاقت ہے جس سے ہم اپنے دشمنوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
مولانا سید حیدر عباس نے مزید اضافہ کیا کہ شہید فخری زادہ امریکہ کے نشریہ فارن پالیسی میں دنیا کے قدرتمند ترین ۵۰۰ افراد کی فہرست میں ۵ ایرانیوں میں سے ایک تھے۔آپ کو شہید کیا گیا لیکن آپ کا علم انہیں زندہ رکھے گا۔
دوران مجلس مولانا سید حیدر نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب بیجا رسومات اور خرافات سے ڈٹ کر مقابلہ کرتے نظر اۓ اور آج اکیسویں صدی میں ان توہمات کی کوئی گنجائش بہر حال باقی نہیں بچتی۔
ہمارے یہ علمی سرمائے ہم سے دور ضرور ہوئے لیکن ان کی راہیں باقی ہیں جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔
نظامت کے فرائض اناؤ کے امام جمعہ مولانا سيد ضیغم عباس زیدی نے انجام دیے۔
آخر میں فعال مبلغ مولانا سید محمد جواد عسکری نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور قارئین کرام سے فاتحہ خوانی کی درخواست ہے۔