حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ حضرت امام حسن مجتبیؑ اور حضرت امام علی رضاؑکی شہادت کی مناسبت سے بانی تنظیم المکاتب ہال میں نیوجرسی امریکہ کے مومنین کی جانب دو روزہ مجالس عزا کی ریکارڈنگ ہوئی۔ جسکا آغاز مولانا محمد عباس معروفی نے تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ سربراہ تنظیم المکاتب حجۃالاسلام والمسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی نے حدیث ثقلین کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ایام عزا کے اس آخری حصہ آخر صفر میں تین اہم حادثات رونما ہوئے ، ۲۸ صفر کو رحمۃللعالمین ﷺ کی شہادت، اسی تاریخ میں آپ کے سبط اکبر امام حسن مجتبی ؑ کی شہادت اور ۲۹ صفر کو متعدد روایات کی بنا پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اور دنیا کو سب سے نقصان ہوا کہ رحمۃ للعالمین ﷺ کے وجود سے محروم ہو گئی اور سلسلہ وحی رک گیا کہ ان سے پہلے اور انکے بعد کسی کو وہ شرف و فضیلت نہیں ملا آپ عالمین کے لئے رحمت تھے۔
مولانا صفی حیدر زیدی نے کہا کہ معتبر روایات کے مطالعہ اور علما و محققین کی تحقیق کے مشاہدہ کے بعد میں ذاتی طور پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضور ﷺ شہید ہوئے ہیں، اگرچہ آپ کو کئی بار زہر دیا گیاجس نے دھیرے دھیرے کام کیا جس طرح حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کو کئی بار زہر دیا گیا تھا۔ اسی طرح حضورﷺ پر کئی بار جان لیوا حملہ بھی ہوا جیسے جنگ تبوک سے واپسی پر کہ اللہ نے اس اندھیری رات میں بجلی چمکا کر آپ کو ان کی صورتیں دکھا دی تھیں جو اونٹ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے تھے اورآپ نے ان کے نام اپنے صحابی جناب حذیفہ کو بھی بتا دئیے تھے۔
سکریٹری تنظیم المکاتب نے فرمایا: ۲۸ صفر ہی کو جنت کے دو برابر کے سرداروں میں سے ایک حسن مجتبی ؑ شہید ہوئے۔ جن کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا: حسن و حسین (علیھماالسلام )امام ہیں چاہے قیام اور جہاد کریں یا صلح کریں۔ اور یہ پیشنگوئی بھی سچ ثابت ہوئی جس طرح قرآن کریم کی پیشنگوئی ـ ’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ (اے نبی ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا) کی صداقت آجتک سچ ثابت ہے۔ دشمن رسول ﷺ کو ابتر کہتا تھا لیکن آج نسل رسول سادات دنیا میں پھیلے ہیں اور آپ کے دشمنوں کی نسل کا پتہ نہیں، امام حسن ؑنے صلح کی اور امام حسین ؑ نے جنگ کی۔ دونوں کا مقصد ایک تھا اسلام و مسلمین کو بچانا اور دین کی ترویج و تبلیغ۔ کیوں کہ دین کے لئے صلح بھی ضروری تھی اور جنگ بھی۔
مولانا سید صفی حیدرزیدی نے کہا کہ اہلبیت حتی کہ خود رسول اللہ ﷺ کی ایک مظلومیت یہ ہے کہ مسلمان انکی تاریخ ولادت و شہادت سے بے خبر ہے ۔ اگرچہ ہم روایات اہلبیتؑ کے صدقہ میں جانتے ہیں کہ ۱۷ ربیع الاول کو آپ کی ولادت اور ۲۸ صفر کو آپ کی شہادت ہوئی۔ اگرچہ یہ ان ذوات کے لئے مظلومیت ہے لیکن ہمارے لئے اس بے خبری میں بھی تربیت ہے جیسے روزی، موت اور کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری روزی کتنی اور کہا ں ہے؟ ہماری موت کب اور کہاں ہوگی؟ لہذا ہر وقت محنت کرتے ہیں اور ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم ۱۹، ۲۱ اور ۲۳ رمضان المبارک میں سے کون سی شب قدر ہے لہذا تینون شبوںمیں اعمال و مناجات اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں تاریخ کے اختلاف کے سبب آپس میں اختلاف سے پرہیز کرنا چاہئیے بلکہ غنیمت جان کر استفادہ کرنا چاہئیے اور ہر امکانی تاریخ پر انکو یاد کرنا چاہئیے۔
سربراہ ادارہ تنظیم المکاتب نے بیان کیا کہ حدیث ثقلین متواتر حدیث ہے اور اسمیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ قرآن و اہلبیت سے متمسک رہو، تمسک معرفت، محبت و مودت اور اطاعت و اتباع کے بعد کی منزل ہے کہ انسان دامن قرآن و اہلبیتؑ کو تھامے رہے کیوں کہ دونوں سیدھے راستہ پر لے جائیں گے نہ داہنے نہ بائیں، اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی دامن قرآن سے متمسک ہو اور اہلبیتؑ سے دور ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی اہلبیت سے متمسک ہو اور قرآن سے دور ہو۔ کیوں کہ ان دونوں میں جدائی ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ قرآن تھامنے کے دعویدار علیؑ اور آل علیؑ تک نہ پہنچیں تو ایک لمحہ کے لئے انکا عذر قابل قبول ہو سکتا ہےکہ اللہ نے حفاظت قرآن کے لئے انکا صریح ذکر قرآن میں نہیں کیا ہے۔ مگر اہلبیتؑ سے وابستگی کے دعویدار قرآن سے دور دکھائی دیں تو انکی کوتاہی لائق عذر نہیںکہ اہلبیتؑ نے قدم قدم پر قرآن سے وابستگی کی صریح تاکید کی ہے اور انکی زندگی قرآن میں رچی بسی تھی قرآن انکی زندگی تھی انکی زندگی قرآن تھا۔