۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مجمع محققین ہند

حوزہ/ حوزہ  علمیہ قم میں مجمع محققین ہند کے  شعبہ قرآن و حدیث کی طرف سے ایک علمی نشست کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں حوزہ علمیہ قم کے طلاب و افاضل نے شرکت کی ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدمہ/ حوزہ  علمیہ قم میں مجمع محققین ہند کے  شعبہ قرآن و حدیث کی طرف سے ایک علمی نشست کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں حوزہ علمیہ قم کے طلاب و افاضل نے شرکت کی ۔ نشست میں مجمع محققین ہند کے سکریٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین جناب محمد باقر رضا سعیدی بھی  موجود تھے۔

نشست کا آغاز حجت الاسلام والمسلمین جناب ماہر غازی کی  تلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔ اس کے بعد شعبہ قرآن و حدیث کے رئیس حجت الاسلام والمسلمین جناب سید عباس مہدی حسنی نے استقبالیہ گفتگو میں نشست کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا اور محترم مقرر اورحاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر حسنی نےاس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ قرآن ایسی  کتاب ہے جو مسلمانوں کے لئے دستور زندگی کی حیثیت رکھتی ہے کہا کہ ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس آسمانی کتاب کی طرف توجہ دیں۔ انہوں نے قرآن مجید کے تئیں طلاب علوم دینیہ اور علمائے کرام  کے اہم کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جہاں دنیا بھر میں اس کتاب کی طرف توجہ دی گئی اور اس کے ترجمہ سے لے کر مفاہیم اور تفاسیر پر کام ہوا ہے، وہیں برصغیر ہند و پاک کے علما نے بھی اس میں اپنا کردار نبھایا ہے اور اس کتاب کی تعلیمات کو روشناس کروایا ہے، لیکن ہم اپنے علما اور دانشوروں کے ان کارناموں اور کاموں سے ناواقف ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے بزرگوں نے کیا کام کیا ہے تاکہ ہم اس علمی کارواں کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔حجت الاسلام حسنی  نے نشست کی غرض و غایت کی اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس نشست کا مقصد یہی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ علمائے ہند و پاک نے قرآن مجید کے سلسلے میں کیا کام کیا ہے،جس کے لئے حوزہ علمیہ قم کے اسکالر ڈاکٹر رئیس اعظم شاہد،  کو دعوت سخن دی گئی تاکہ موصوف اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔

حوزہ علمیہ قم کے اسکالر اور المصطفیٰ ص انٹرنیشنل کے استاد ڈاکٹر رئیس اعظم شاہد نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس موضوع پر کافی عرصہ سے کام کر رہے ہیں  تاہم یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک جامع کام ہے ، البتہ اس سے طالب علموں کو مزید علمی اور تحقیقی کام کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر اعظم شاہد نے برصغیر میں قرآنی تحقیقات پر اپنے شوق اور جذبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ ایک بار کسی کلاس میں ایک استاد نے جہان اسلام کے علماء کی قرآنی تحقیقات  کا ذکر کرتے ہوئے برصغیر کے علما کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ برصغیر کے علما نے اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا ہے بلکہ وہ علمی طور پر فقیر ہیں، یہی بات سبب بنی کہ میں برصغیر پاک و ہند کے قرآنی تحقیقات کا جائزہ لوں۔

انہوں نے کہا  کہ میں اپنی تحقیقات میں جتنا آگے بڑھتا جارہا تھا میرے تعجب میں اضافہ ہوتا جارہا تھا کہ ہمارے علما نے قرآن کے سلسلے میں اتنا کام کیا ہے کہ ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ماضی اس سلسلے میں بہت روشن ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اس نورانی سلسلے کو آگے نہیں بڑھا سکے۔
ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ میں اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس سلسلے میں  جتنا کام برصغیر میں ہمارے علما نے کیا ہے جہان اسلام میں کہیں نہیں ہوا ہے۔

ڈاکٹر رئیس اعظم نے برصغیر میں قرآنی تحقیقات کو  مندرجہ ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا:
ورود اسلام سے برطانوی حکومت تک،
برطانوی حکومت سے اسلامی انقلاب تک، 
اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک، 
حوزہ علمیہ قم کے اس محقق نے ان ادوار کی تفصیل اور تاریخ کو بیان کرتے ہوئے کہا  کہ برصغیر میں اسلام کی آمد قرآن کے ساتھ ہوئی۔ پھر جب لوگ آہستہ  آہستہ عربی زبان سے آشنا ہوئے تو عربی کے الفاظ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں داخل ہونا شروع ہوئے اور سب سے پہلی  زبان جو عربی سے متاثر ہوئی بلوچی زبان تھی اور پھر وقت گزرنے  کے ساتھ قرآن کے ترجمے ہونا شروع ہوئے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا :227ء میں کشمیر کے راجا مہروک نے سندھ کے حاکم کو خط لکھا اور ان سے گزارش کی کہ ایک عالم جو ہندی زبانوں سے آشنا ہوں، کشمیر بھیجیں جو کشمیر میں اسلام کی تبلیغ کر سکے۔ ایک عالم کو راجا مہروک کے پاس بھیجا گیا جنہوں نے راجا کی خواہش پر قرآن مجید کے آغاز سے سورہ یاسین تک تفسیر بیان کی۔
المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے بر صغیر میں اردو اور فارسی ترجموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 1200 عیسویں میں جب اردو زبان ہندوستان کی قومی زبان قرار پائی تو اس  وقت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے دو بیٹوں شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو  اور فارسی زبان کے مکمل ترجمے کئے۔

انہوں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ نے 1200 میں قرآن مجید کا پہلا مکمل فار سی ترجمہ کیا اور ان کے دونوں بیٹوں نے مکمل قرآن کے اردو ترجمے کئے۔

انہوں نے دکن کے پہلے قرآنی محقق محمد طاہر ابن مہدی دکنی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 880 میں مکتب اہلبیتؑ کا تعارف کروایا اور تفسیر بیضاوی جو برصغیر میں نہایت اہم تفسیر مانی جاتی تھی اس پر حاشیہ لکھا۔
ڈاکٹر شاہد نے دسویں صدی کے عالم محمد ابن احمد خواجگی شیرازی کے بارے میں بتایا کہ انہوں  نے  معروف شیعہ تفسیر مجمع البحرین کی تلخیص کی جس کا نام تفسیر بحر المعانی تھا۔

اس قرآنی محقق نے شیخ مبارک ناگپوری کی جامع شخصیت پر اجمالی روشنی ڈالتے ہوئے  ان کی قرآنی تحقیق "منبع نفائس العیون" کا نام لیا اور ان کے بیٹوں ابوالفیض  فیضی اور ابوالفضل علامی کے بارے میں بتایا کہ یہ دونوں عظیم عالم تھے جو اکبر بادشاہ کے دربار کے نو رتن میں شامل تھے۔
انہوں نے کہا فیضی  کی تفسیر "سواطع الالہام" اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے کیونکہ فیضی نے یہ تفسیر بغیر نقطے کے لکھی ہے۔

ڈاکٹر شاہد نے سید ابوالقاسم حائری اور سید علی حائری کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تفسیر "لوامع التنزیل و سواطع التاویل" کے بارے میں بتایا کہ ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر یہ عظیم تفسیر لکھی ہے جسے اگر آج کے زمانہ میں چھاپا جائے تو  اس کا حجم علامہ مجلسی کی بحار الانوار کے برابر ہوگا۔
نشست کا وقت محدود ہونے کی وجہ سے  ڈاکٹر رئیس اعظم شاہد نے آخر میں فہرست  وار دور حاضر کی بعض تفاسیر اور  ترجموں کا نام لیا جن میں، علامہ فرمان علی ، علامہ ذیشان حیدر جوادی، علامہ محسن نجفی،بمولانا مقبول احمد دہلوی وغیرہ کے ترجموں اور تفاسیر کی جانب اشارہ کیا۔

آخر میں حاضرین میں سے کچھ طلبہ نے سوالات بھی کئے  اور شعبہ قرآن و حدیث کے رئیس حجت الاسلام ڈاکٹر حسنی کے کلمات تشکر کے ساتھ اس علمی نشست کا اختتام ہوا۔
متعلقہ ویڈیو دیکھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں:

پہلا حصہ:
https://www.facebook.com/IRCQUM/videos/4774547485919094/
دوسرا حصہ:
https://www.facebook.com/IRCQUM/videos/2910338905876296/
تیسرا حصہ:
https://www.facebook.com/116756993451358/posts/157659192694471/

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .