۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا سید حمید الحسن زیدی

حوزہ/ اسلام کے نام سے صلح وسلامتی کا پیغام ملتا ہے۔اس کے تمام اصول وضوابط کی بنیاد افہام وتفہیم پر ہے اور کہیں بھی کسی طرح کی شدت پسندی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید حمیدالحسن زیدی نے کہا کہ اسلام کے نام سے صلح وسلامتی کا پیغام ملتا ہے۔اس کے تمام اصول وضوابط کی بنیاد افہام وتفہیم پر ہے اور کہیں بھی کسی طرح کی شدت پسندی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ قانون اسلام بنانے والے رحمٰن ورحیم خدا نے اس قانون کے پہنچانے والے نبی کو نبی رحمت بنا کر بھیجا’’وماارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘اس کے بعد واضح لفظوں میں اعلان کر دیا کہ اگر آپ قہر وغضب والے ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے پراگندہ ہو جاتے ’’ لو کنت فظا غلیظاً القلب لانفضوا من حولک ‘‘’’ آپ کے گرد پروانہ کی صورت میں عاشقوں کا یہ مجمع آپ کے اخلاق کریمہ کا نتیجہ ہے ۔‘‘ پیغمبر اسلامؐ نے بھی یہ اعلان کیا کہ ہماری بعثت کا مقصد اخلاقی خوبیوں کو منزل کمال تک پہنچانا ہے ۔ رسول اسلامؐ نے اپنے اس اعلان کے ساتھ عملی صورت میں اخلاق کا ایسا نمونہ پیش کیا جو ہر طرح کی شدت پسندی کا منہ توڑ جواب ہے۔ اسلام کے مخالفین نے پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ روز اول سے جس شدت پسندی کا مظاہرہ کیا وہ آج بھی تاریخ کے دامن پر بد نما داغ ہے ۔ آپ کے سر پر کوڑا ڈالاجانا ، راستے میں کانٹے بچھائے جانا ،دیوانہ اورجادوگرکہاجانا،اقتصادی بائیکاٹ کرکےشعب ابوطالب ؑ نامی درہ میں تین سال تک نظر بند رکھنا اور پھر تمام دشمنان اسلام کا متحد ہو کر آپ کے گھر کو گھیر لینا، آپ کے خاموشی سے ہجرت کر جانے کے بعد بھی مدینہ کے ۱۱سالہ دور حیات میں کم سے کم ۸۰ جنگیں تھوپنا ،زن یہودیہ کے ذریعہ آپ کو زہر دیا جانا آپ کی بیٹی کے دروازے پر آگ اور لکڑیوں سے حملہ کرنا آپ کے وارث حضرت علی ؑکوعین حالت نمازمیں قتل کیا جانا، آپ کے بڑے نواسے کو صلح کرکے حکومت سے کنارہ کشی کرنے کے بعد بھی زہر دیا جانا اور پھرصحرا ئے کربلا میں ایک مسافر کو ہزاروں کے لشکر کا گھیر لینا اس کے تمام ساتھیوں کو قتل کرکے اس کے خیموں میں آگ لگانا، عورتوں اور بچوں کو اسیر کرکے دیار بہ دیار پھرانا، اسلام کے خلاف دشمنان اسلام کی وہ شدت پسندی اور دہشت گردی کی مثالیں ہیں جنہیں نظر انداز کرکے دہشت گردی کے اصلی چہرہ کاپہچاننا مشکل ہے۔

ممکن ہے یہاں پر یہ سوال ہو کہ اسلام کے خلاف مذکورہ دہشت گردانہ اقدامات اکثرخود مسلمانوں کے ذریعہ کئےگئےہیں، لہٰذا اسےاسلام کےخلاف نہیں کہاجاسکتا لیکن ایسے دہشت گردانہ اقدامات کرنے والوں کی تاریخ اور ان کی پلاننگ پر نظر ڈالنے کے بعد اس سوال کا جواب خود بخود مل جائے گا کہ دشمن نے اسلام کے فطری اصول وضوابط کے سامنے اپنا کھوکھلاپن ثابت ہونے اور اسلام پر ظاہری فتح حاصل نہ کر پانے کے بعد یہ شیطانی حربہ نکالا کہ خود اسلام کے نام پر ہی اسے نقصان پہنچایا جائے چنانچہ بظاہردائرہ اسلام میں داخل ہو کراسے اندر سے نقصان پہنچانے کی سازش رچی گئی ان لوگوں نے ایک طرف رہبران اسلام کو نشانہ بنا کر ان کاخاتمہ کرکے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف اپنے جارحانہ اقدامات کے ذریعہ دوسری قوموں میں اسے بدنام کیا تاکہ لوگ خود بخود اسلام سے نفرت کرنے لگیں۔

دشمنان اسلام کا یہ پر انا حربہ آج پھر اسلام کے خلاف استعمال ہورہا ہے اور پوری دنیا میں نام نہاد اسلامی تنظیموں کے نام پر دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کی جار ہی ہیں۔

عالمی استعمار جو ہمیشہ قوموں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا اپنا حق سمجھتا ہے جس کے لئے وہ ایک طرف نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خرید کر ان کے ذریعہ اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرکے پیش کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے خلاف اپنے گرگوں سے جارحانہ اقدامات کروا کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کرتا ہے ۔ اسی طرح دوسری قوموں کے جذبات بھڑکاکر انہیں اسلام دشمنی پر آمادہ کرکے ایسے نام نہاد مسلمان گرگوں سے دہشت گردانہ وارداتیں کروا کر اسلام کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے میں ان وارداتوں سے تیل کا کام لیتا ہے موجودہ دورمیں ایک بار پھرعالمی استعمار کے سر غنہ شیطان بزرگ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کو اپنا شکار بناکرایک طرف نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے ضمیر کاسودا کیا تو دوسری طرف پاکستان میں سپاہ صحابہ کے گنڈوں کے ذریعہ صحابہ کی جھوٹی حمایت کے نام پر ایک نیا فتنہ کھڑا کردیا جس سے امت اسلام صپس میں ایک دوسرے کے خلاف اشتعال کا شکار ہو کرقتل ھارت گری شتوع کردے اور دنیا اسلام کو سیک خونریز مذہب دمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگے۔

اس حساس موقعہ پر صاحبان شعور علماءا سلامکی ذمہ داری ہےکہ وہ دور اندیشی سے کام لیں اور کسی طرح  فتنہ کی آگ کو روک کر اسلام کے امن پسدانہ مزاج کا مظاہرہ کریں جیساکہ بہت سے علماء نے سامنے آکر اس دور اندیشی کا مظاہرہ بھی کیا ہے اور بزرگ علماء اہل سنت نے کسی حد سہی بنی امیہ کے مظالم کا عام طورپراور یزید منحوس کے جرایم کا خاص طور اعتراف کیا ہے۔

امید ہے مسلمہ مزید بیدار ہوگی اور تاریخ کے تمام مجرین کے چہروں سے نقاب اٹھاکر ان کی رسوائی اور پیغمبر اسلام کی اولاد اور حقیقی اصحاب کے کردار کو اپنا سرلوحہ حیات قرار دے گی تا کہ دنیا وآخرت دونوں میں سرخرو ہو سکے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .