۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | متکلم، محدث، مفسر، طبیب، فلسفی،ادیب، شاعر،مدرس، واعظ، مفتی سیدمحمد عباس شوشتری ربیع الاوّل1224ھ میں سرزمین لکھنؤ پرپیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید علی اکبر صاحب نے آپ کا نام آپ کے چچا سید عباس کے نام پر سید محمد عباس رکھا۔

مفتی محمد عباس نے ابتدائی تعلیم پانچ سال کی عمر میں سنی مسلک کے عالم دین "مولوی عبد القوی" کے پاس مکمل کی۔آپ نہایت ذہین تھے اسی لئے تین دن میں حروف تہجی پڑھنے کے بعد پند نامہ سعدی پڑھنا شروع کردیا۔ آپ نے چودہ سال کی عمر میں بہت سے علوم مثلاً معقولات، حساب، منطق، فلسفہ ، ہئیت، ہندسہ،تفسیر اور کلام وغیرہ میں مہارت حاصل کر لی تھی۔موصوف آٹھ سال کے تھے کہ ایک طالب علم نے شرح جامی کا نہایت مشکل مسئلہ دریافت کیا، آپ نے فورا ً سمجھا دیا۔ طالب علم نے کہا: میں نے اس شہر کے علماء سےتیرہ مرتبہ شرح جامی پڑھی ہے لیکن کسی نے اس مسئلے کو حل نہیں کیا لہٰذا اب میں آپ ہی سے پڑھوں گا۔

آپ کو تحصیل علم کا اس قدر شوق تھا کہ ضروری کاموں پر بھی تحصیل علم کو ترجیح دیتے تھے یہاں تک کہ کھانے پینے اور دیگر کاموں کی انجام دہی کو وقت کی بربادی سمجھتے تھے۔ اگردسترخوان پر روٹی آگئی تو سالن کا انتظار کئے بغیر اسے کھانا شروع کر دیتے تاکہ جلدی فراغت ہو جائے اور کتب بینی میں تاخیر نہ ہو۔

مولوی عبدالقوی کی حوصلہ افزائی کی بدولت، طب کا شوق ہوا لہذاطبیب الملوک مرزا علی خان ، مسیح الدولہ مرزا حسن علی خان اورمرزاحکیم عوض علی کے پاس طب کی کتابیں پڑھیں۔سید العلماءآیت اللہ سید حسین علیین مکان سے فقہی دروس کی تکمیل فرمائی؛ آپ کو سید العلماءنے اجازۂ نقل روایت اور اجازۂ اجتہاد بھی مرحمت فرمائے۔ جب آپ اکیس برس کے ہوئے تو علم تجوید کی تکمیل کا شوق ہوا لہٰذا مشہور معاصرقاریوں سے پڑھ کر اس فن میں مہارت حاصل کی۔

آپ نے سینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے کچھ اسماء اس طرح ہیں: مولاناسید مہدی شاہ ، آیت اللہ حامد حسین موسوی، مولانا ابو الحسن رضوی، مولانا حیدر علی، مولانامرزا محمد علی، ناصرالملت آیت اللہ ناصر حسین موسوی، مولاناسید محمد جونپوری، مولانا علی محمد بن سلطان العلماء ، مولانا سید علی جواد، مولانا سید نقی وغیرہ

سن 1258 ہجری میں شاہ اودھ محمد علی شاہ کی طرف سے علمی قدردانی کے عنوان سے مناسب وظیفہ مقرر ہوا۔ اسی زمانے میں آپ نے" جواہر عبقریہ" نامی کتاب تصنیف کی۔ سن1264ہجری میں قاضی القضات کے عہدہ پر فائز ہوئے اور محکمہ کیلئے قوانین مرتب کئے۔ سن1298ہجری میں کلکتہ آئے تو آپ کو افتخار العلماء اور تاج العلماء کا لقب دیا گیا۔ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے شمس العلماء کا خطاب ملا۔

آپ کو بچپن سے ہی عبادت کا شوق اور طولانی سجدے کرنے کی عادت رہی ۔ آپ کی استجابت دعا زبان زد خاص و عام تھی اور آپ صاحب کرامت بھی تھے۔ اس کے چند نمونے تجلیات تاریخ عباس میں مذکور ہیں۔عدل و انصاف کے ذیل میں یہ کہنا کافی ہے کہ حکومت کی جانب سے جرائم کی تحقیق اور اجرائے احکام کیلئے افتا کا محکمہ آپ کے سپرد تھا۔

آپ کی زندگی کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جو پاکیزہ اور طیب زندگی کی عکاسی کرتے ہیں: 15 صفر1274ہجری کی شدیدگرمی اورچلچلاتی دھوپ پورے لکھنؤ شہر کو جھلسا رہی تھی، اچانک آپ کے گھر کے قریب والے گھر میں آگ لگ گئی اورآگ بھڑکنے کی وجہ سے اہل خانہ گھرسے باہر نہ نکل سکے۔ اس وقت آپ نے اللہ کی بارگاہ میں بارش کی دعا کی، آسمان پردور دور تک بادلوں کا نام و نشان نہ تھااچانک بادل کاایک ٹکڑا اسی گھر پرنمودار ہوکرپھیلنے لگا اور آنا ًفاناً برسنا شروع کردیا، اتنی بارش ہوئی کہ آگ بجھ گئی اور تمام اہل خانہ آگ سےامان میں آگئے۔ جب آگ بجھ گئی تو دیکھنے میں آیاکہ بارش صرف آگ کی جگہ پرہوئی باقی جگہ پہلے کی طرح خشک ہی ہے!۔

آپ نے اپنی مصروفیت کے باوجود تین سو سے زیادہ کتابیں علم تفسیر ، حدیث، کلام، فقہ ، اصول، منطق ، فلسفہ ، ہیئت ، ہندسہ، صرف اور نحو کےعنوان پرتحریر فرمائیں جن میں : تفسیر سورہ رحمٰن، سیف مسلول، روائح القرآن فی فضائل امنا ءالرحمن،شریعت غرّا، نور الابصار فی مسائل الاصول والاخبار، حواشی شرح سلم ملا حمد اللہ، ترجمہ صدرا شرح ہدایت الحکمۃ تا فلکیات، صرف ونحو، معانی وبیان وعروض، ادب اور طب میں تقریباً 60 تالیفات اور متفرقات میں 14 تالیفات ہیں۔ان میں سے بہت سی کتابیں اپنی نظیر آپ ہیں۔

آپ عربی، فارسی اور اردو کے عظیم شاعر تھے، آپ نے تینوں زبانوں میں قصیدہ ،منقبت، سوز، سلام، نوحہ، مرثیہ، غرض تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔

آپ کی اولاد میں: مولاناسیدمحمدصاحب عرف وزیر، سیدحسن مولوی سیدحسین عرف صابر،مولوی سیدامیرحسن، مولوی سیدنورالدین، مفتی سیدمحمدعلی صاحب اورمفتی احمدعلی اور چاربیٹیاں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

آخرکار یہ علم وکمال کا روشن آفتاب 25 رجب سن1304 ہجری میں سرزمین شہر لکھنؤ پر غروب ہوگیا، چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر اکھٹا ہوگیا، دریائے گومتی کے کنارہ غسل و کفن ہوا، نماز مغرب کے بعدعلماء، فضلاء، طلاب اور مؤمنین کے عظیم اجتماع کی موجودگی میں امام بارگاہ غفرانمآب میں مولانا ابولحسن عرف ابو صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ہند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص179، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/B4wcfZt_3_M

?si=nCTtKIG5Yp5zN-iP

تبصرہ ارسال

You are replying to: .