حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ۷۵ یوم آزادی جمہوریہ ہند کے موقع پر القائم میڈیا کی جانب سے ایک شاندار وبینار کا انعقاد کیاگیا جس میں خطہ لداخ کے نامور علمی اور اجتماعی شخصیات من جملہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ عبداللہ جلیلی ، ڈگری کالج زنسکر کے مدیر محترم پروفیسر ناصر شعبانی، کرگل نوجواں سانیس دان ڈاکٹر ارشاد احمد ، دہلی یونیورسٹی کے کومسر کے پروفیسر محمد حسن اور شیخ جواد حبیب نے شرکت کی جسمیں "یوم آزادی تنوع میں اتحاد" کے عنوان پر مقریرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یہ وبینار القایم میڈیا کے انسٹاگرام پر آنلاین رکھاگیا جسمیں جوانوں اور اسٹوڈینس کی کثیر تعداد نے شرکت کی مقریرین حضرات نے آزادی کے اہداف اور مقاصد ،شہداء وطن کی قربانی ،اور سیاسی ، اجتماعی اور دینی رہبروں کی راہنمایی اور فداکاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور ملک کی صورت حال پر بھی گفتگو کی اور دور حاضر کے سبھی ہندوستانیوں سے علمی ، سیاسی ، مذہبی اور اجتماعی عہداروں سے گزارش کی کہ تحریک آزادی کے اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے میں دن دوگنی اور رات چوگنی کوشش کریں۔
محمد جواد حبیب نے کہا: ہماری آزادی کو 75 سال ہوگئے آزادی کا امرت مہوتسو اور جشن منانے کا ہمیں موقع ملا، اس بات پر ہم جتنا خوشی کا اظہار کریں وہ کم ہے سارے ہندوستانی ایک دوسرے کو دلی مبارکباد دیں کیوں کہ آزادی کی لڑائی سب نے مل کر لڑی اور انگریزوں کے سامراج کو ختم کرنے کے لیے نہ جانے کتنے ہندوستانیوں نے اپنے خون سے اس کہانی کو سرخی عطا کی ۔
انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 ءمیں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتھا،اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947 ءمیں 346 ءسال بعد ہوا۔ اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی تھی، جس کا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبۂ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے،جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی۔
تحریک آزادی کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو ان الفاظ کے گرد گھومتی ہیں جو آزادی کا بنیادی تصور بھی ہیں:
قانون کی حکمرانی Rule of Law
جمہوریت Democracy
آزادی ، بالخصوص مذہبی آزادی freedom, liberty
عدالت و انصاف Justices
مساوات Equality
اخوت brotherhood, fraternity
آزادی کے بعد ہندوستان ایک آزاد، سماج وادی، جمہوری ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال،آزادئ اظہار رائے، آزادئ عقیدہ مذہب وعبادات، انفرادی تشخص اوراحترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکها جائے گا۔
جیسے کہ سبھی ہندوستانی کو بخوبی علم ہے ۹۰ ھزار شہداء آزادی ہند کے نام انڈیا گیٹ پر لکھا ہوا ہے جسمیں ۶۱ شہداء مسلمان ہیں اور ان میں کچھ شخصیات نے آزادی کی راہ میں بہت کار آمد کردار ادا کئے ہیں جیسے مولانا ابو الکلام آزاد،جواہر لعل نہرو ، سردار پٹیل، ، ڈاکٹر امبیڈکر، راج گوپال آچاریہ، بابو راجیندر پرساد ،رفیع احمد قدوائی ،شہید بھگت سنگھ ،مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی ، شہید اشفاق اللہ خان، آپ شھید بھگت سنگھ کے دوست تھےآزادی کےلئے آپ بھانسی پر چھڑ چکے ہیں ،خان عبد الغفار خان ،گاندھی جی کے دائیں ہاتھ تھے گاندھی جی جو بھی فیصلہ لیتے وہ خان عبد الغفار خان سے ضرور مشورہ لیتے،بی اماں ، جنھوں نے اپنے ساتھ اپنے بیٹوں کو آزادی کے لئے قربان کیا،مولانا مظہر الحق، بھت بڑے لیڈر تھےصداقت آشرم پٹنا میں رہتے تھے، ڈاکٹر سید محمود انکا تعلق یوپی سے ہے لیکن پوری عمر بھار میں گزار دی،حاجی بیگم، ایک خاتون ہونے کے باوجود آزادی میں بہت بڑا کردار نبھائی ہے،حکیم اجمل خان ،بھت مشہور نام ہے ،بدر الدین طیب اور ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ کی قربانی یاد کررکھنے کے قابل ہے ۔ہم ان سارے شہدا کو سلام کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ان کے خون کو رایگان جانے نہیں دینگے بلکہ ان اہداف اور مقاصد کو پورا کرنے میں کوشاں رہیں گے۔
پروفیسر اخترالواسع لکھتے ہیں "آزاد ہندوستان میں تین مسلمان صدر، تین نائب صدر، ایک کیبنٹ سکریٹری، ایک ہوم سکریٹری، ایک فارن سکریٹری، ایک ڈائریکٹر انٹلیجنس بیورو، ایک فضائیہ کے سربراہ، سپریم کورٹ کے چار چیف جسٹس، دو چیف الیکشن کمشنر، کشمیر میں تو سبھی لیکن بہار، مہاراشٹر، راجستھان، آسام، منی پور، پانڈیچری اور کیرالہ میں بھی ایک ایک چیف منسٹر مسلمان رہے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے گورنر، مرکز اور ریاستوں میں وزیر رہے۔ سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج ایک مسلمان جسٹس فاطمہ بیوی بنیں تو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کی سب سے طویل مدت تک ڈپٹی چیئر پرسن ڈاکٹر نجمہ ہیبت اللہ رہیں۔ ہندوستان کی طرف سے انٹارکٹکا (قطب جنوبی) میں پہلی مہماتی ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ایس زیڈ قاسم تھے جنہوں نے نئے یُگ کی گنگوتری کی وہاں تعمیر کی اور یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ ان کے ڈپٹی لیڈر بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم ہی تھے۔ اسی طرح میزائل مین کے طور پر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ اسی طرح ملک کی حفاظت میں اپنی جان دینے والوں میں بریگیڈیر عثمان سے عبدالحمید سمیت اور کیپٹن سیفی جیسے انگنت شہیدوں کو نہیں بھلایا جاسکتا۔ نئے یُگ کے مہارشی ویاس بن کر جس طرح ڈاکٹر راہی معصوم رضا نے مہابھارت کو ٹی وی کے لیے رچا اسے کون بھلا سکتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی فلم انڈسٹری ہو یا کھیلوں کی دنیا، مسلمانوں نے ہر ہر شعبے میں جو امتیاز حاصل کیا، شہرت پائی اور ملک کے لیے ناموری کا باعث بنے، ان کے نام اور کام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
آئیے آج ہم عہد کریں کہ اس ملک میں فتنہ و فساد، فرقہ وارانہ تناؤ اور کسی طرح کے سماجی بھیدبھاؤ کو پروان نہ چڑھنے دیں گے اور اپنے ملک کی عظمت اور قومی اتحاد کے لیے سب ایک جُٹ ہوکر ہندوستان کی عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے کام کریں گے۔