۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
امام خمینی و مولانا مودودی

حوزہ/ 20 جنوری 1979 کو جب ایران میں مسلط ظالم شاہ کے خلاف فیصلہ کُن تحریک اپنے عروج پہ تھی ، امام خمینی کے دو رکنی وفد نے مولانا مودودی سے,ان کی رہائیش گاہ اچھرہ, لاہور, میں ملاقات کی اور امام خمینی کا خط پیش کیا

تحریر: سید نثار علی ترمذی

حوزہ نیوز ایجنسی آج 20 جنوری ہے، 20 جنوری 1979ء جب امام خمینی کے دو رکنی وفد نے مولانا مودودی سے,ان کی رہائیش گاہ اچھرہ, لاہور, میں ملاقات کی اور امام خمینی کا خط پیش کیا. یہ وفد ڈاکٹر کمال خرازی اور انجینر محمد پر مشتمل تھا. امام خمینی کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام راحل نے مولانا مودودی کے خط کے جواب میں خط تحریر کیا. وفد کو آئی ایس او کے جوان جلوس کی صورت میں اچھرہ لے کر آے, بعد ازاں وفد نے جامعۃ المنتظر کا دورہ بھی کیا. اس تاریخی ملاقات کی تفصیل ممتاز صحافی رفیق ڈوگر نے اپنی کتاب ” مولانا مودودی سے ملاقاتیں ” میں درج کی ہے, جو میری کتاب ” مولانا مودودی داعی وحدت امت ” میں شامل ہے۔

” 20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: “آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔”

رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “اتنے میں مہمانوں کے لیے چائے آ گئی۔ مولانا نے انگریزی میں کہا ’’I am sorry میں بیمار ہوں، ادھر ڈرائنگ روم میں نہیں جا سکتا۔ یہیں چائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا کے کمرے میں بڑے بڑے لوگ آئے، علماء اور دنیا دار آج تک مولانا نے کبھی کسی سے اس قسم کے معذرت کے الفاظ نہیں کہے۔ آج جتنا تکلف کیا گیا پہلے کبھی وہ دیکھنے میں بھی نہیں آیا۔ اعلیٰ قسم کے برتن، چائے اور پھل بسکٹ وغیرہ۔ چائے کے دوران مولانا نے امام خمینی کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انجینئر محمد نے اپنی دونوں انگلیاں اوپر کو اٹھاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’وہ اس طرح سیدھے چلتے ہیں ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ انھیں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ملا ہوا ہے، وہ سادہ غذا کھاتے ہیں۔ معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور رات کو تین گھنٹے عبادت کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔

مولانا نے پھر کہا: “مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔

جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں بھی ایسا کیا جائے گا۔ انجینئر محمد نے کہا:

اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے”۔

یوں یہ نشست دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی مگر امت کو کئی پیغامات دے گئی۔ مولانا مودودی کی امام خمینی سے اس قدر ہم آہنگی تھی کہ انہوں نے بارہا اس بات کی وضاحت کی کہ وہ ان شیعوں جیسے نہیں ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں میں شیعوں کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں اور نفرتوں کی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ اصل شیعہ کردار اور طرح کا ہے اور لوگ امام خمینی کو بھی یہاں کے شیعوں کے کردار پر تولتے ہیں۔ جس ملک میں بھی اسلامی انقلاب آئے گا ظاہر ہے وہ وہاں کی اکثریتی فقہ کی نمائندگی کرتا ہو گا۔ بہرحال وہ اسلامی انقلاب ہی ہو گا۔

اس نشست سے مولانا مودودی کی انقلاب اسلامی سے محبت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اس ملک پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آئے۔ انہوں نے بالصراحت کہا کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ انقلاب اسلامی کے لیے متحد و متفق ہیں۔ انجینئر محمد نے جو بات کی اس پر آج بھی عمل کی ضرورت ہے کہ اگر شیعہ سنی، رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان سے بڑی طاقت اور کونسی ہو سکتی ہے اور آج کے مسائل کا حل اسی جذبے میں کار فرما ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسا مسلمان عالم دین جو کہ فقہ حنفیہ پر کاربند ہے نے دوسرے فقہی مسلک کے بارے میں کس قدر اچھے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آج ہم ان وسیع القلب اسلاف کے طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا جن اپنی قوت کے ساتھ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں دین کے نام پر قتل ہونا جہالت نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً ہمارا مشترکہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ آج وہ شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں مقبول ہوگا جو فرقہ واریت و دہشت گردی کی آگ پر پانی ڈالے۔ بقول انجم رومانی

ع بیدار! اہل قافلہ سونے کے دن گئے

ہشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا۔

حوالہ جات :

۱۔ افتخار احمدپروفیسر،عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز،امین پورہ بازار، ۱۹۸۴)

2۔ ترجمان القرآن اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .