حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی عقیدے کے مطابق، کائنات کی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور تمام مخلوقات اسی کی اطاعت کے پابند ہیں۔ لہٰذا یہ بات بدیہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ جسے چاہے، اپنی طرف سے انسانوں پر حاکم و امام مقرر کرے، بشرطیکہ وہ اس کے شایان شان ہو اور اس میں مصلحت پائی جاتی ہو۔ جس طرح پیغمبر کو اللہ تعالیٰ ہی منتخب کرتا ہے، اسی طرح امام بھی صرف اللہ کے حکم سے منتخب ہوتا ہے اور لوگوں پر اس کی ولایت قائم ہوتی ہے۔
شیعہ عقیدے کے مطابق، امام اور پیغمبر کا جانشین صرف اللہ کے حکم سے اور اسی کے انتخاب سے ہوتا ہے، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے حکم سے اپنے بعد والے امام کی نشاندہی فرماتے ہیں۔ اس مسئلہ میں کسی فرد یا جماعت کو مداخلت کا حق نہیں۔
ضرورت نصب امام کے دلائل
الف۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کائنات پر مکمل حاکمیت صرف اللہ کی ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ
“حکم صرف اللہ کے لیے ہے۔” (یوسف: 40)
اسی بنیاد پر، خدا جسے چاہے حاکم بناتا ہے۔ چنانچہ جس طرح پیغمبر، اللہ کے انتخاب سے مقرر ہوتے ہیں، امام بھی اللہ کے ہی حکم سے امام بنائے جاتے ہیں۔
ب۔ امام کے لیے عصمت، علم، اور دیگر بلند صفات لازم ہیں۔ اور یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی عقل یا رائے سے ایسے فرد کی شناخت کرے۔ ان خصوصیات کی شناخت صرف اللہ کے لیے ممکن ہے، جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے۔
قرآنی دلائل
اللہ تعالیٰ نے متعدد انبیاء کے بارے میں فرمایا کہ اُنہیں اس نے خود امام یا خلیفہ بنایا:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
“میں تمہیں لوگوں کے لیے امام بنانے والا ہوں۔” (البقرہ: 124)
حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً
“میں زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” (البقرہ: 30)
حضرت داوود علیہ السلام کے لیے: يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ
“اے داوود! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔” (ص: 26)
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
“اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔” (الأحزاب: 45)
اور مزید فرماتا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
“اور ہم نے ان میں سے بعض کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، کیونکہ وہ صبر کرنے والے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔” (السجدة: 24)
یہ سب دلائل اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ امام کا تعین اور نصب صرف خدا کا حق ہے۔
امام رضا علیہ السلام کا جامع بیان
امام رضا علیہ السلام امامت کی حقیقت اور اس کی عظمت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
... هَلْ يَعْرِفُونَ قَدْرَ الْإِمَامَةِ وَ مَحَلَّهَا مِنَ الْأُمَّةِ فَيَجُوزَ فِيهَا اخْتِيَارُهُمْ؟
کیا لوگ امامت کی قدر اور اس کی امت میں منزلت کو پہچانتے ہیں کہ وہ اس کے لیے انتخاب کا حق رکھیں؟
إِنَّ الْإِمَامَةَ أَجَلُّ قَدْراً وَ أَعْظَمُ شَأْناً وَ أَعْلَى مَكَاناً...
یقیناً امامت کا مرتبہ بہت بلند، مقام بہت عالی، اور اس کی حیثیت بہت عظیم ہے۔
إِنَّ الْإِمَامَةَ أُسُّ الْإِسْلَامِ النَّامِي وَ فَرْعُهُ السَّامِي...
امامت، اسلام کی جڑ اور بلند ترین شاخ ہے۔ امام ہی نماز، زکات، روزہ، حج، جہاد، حدود، صدقات، اور اسلامی نظم و نسق کو قائم کرتا ہے۔
الْإِمَامُ يَحِلُّ حَلَالَ اللَّهِ وَ يُحَرِّمُ حَرَامَ اللَّهِ...
امام، اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام قرار دیتا ہے، اور خدا کے دین کی حفاظت کرتا ہے۔
الْإِمَامُ وَاحِدُ دَهْرِهِ، لَا يُدَانِيهِ أَحَدٌ، وَلَا يُعَادِلُهُ عَالِمٌ...
امام اپنے زمانے میں یگانہ ہوتا ہے، نہ کوئی اس کے برابر ہو سکتا ہے، نہ اس جیسا کوئی عالم پایا جاتا ہے۔ اسے وہ مقام بغیر طلب کے دیا گیا ہے، بلکہ یہ خداوند متعال کی عنایت ہے۔
فَمَنْ ذَا الَّذِي يَبْلُغُ مَعْرِفَةَ الْإِمَامِ، أَوْ يُمْكِنُهُ اخْتِيَارُهُ...؟
تو پھر کون ہے جو امام کی معرفت کو پا سکے یا جس کے لیے امام کا انتخاب ممکن ہو؟
(اصول کافی، ج ۱، ص ۱۹۸)
کتاب: نگین آفرینش









آپ کا تبصرہ