حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان ایک اہم سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ زیارت جیسے معنوی اعمال کو ترجیح دی جائے یا معاشرتی ضروریات جیسے انفاق، خدمت خلق اور فلاحی کاموں کو؟ اس سوال پر حوزہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اخلاقی شبہات کے ماہر حجۃ الاسلام رضا پارچہ باف نے جامع انداز میں روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ اس سوال کا جواب ایک ایسے نازک توازن کا متقاضی ہے، جو روحانی عبادات اور انسانی ذمہ داریوں کے درمیان قائم کیا جانا چاہیے۔ زیارت، دین اسلام میں نہ صرف ایک مستحب عمل ہے بلکہ اسے تزکیۂ نفس، تقویت ایمان، اور معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
زیارت کی دینی حیثیت
اسلامی تعلیمات کے مطابق، مکہ مکرمہ اور کربلا جیسے مقدس مقامات کی زیارت کو عظیم اجر و ثواب کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام کا فرمان ہے:
"جو شخص دوری کے باوجود میری زیارت کے لیے آئے، قیامت کے دن تین مقامات پر میں اس کی مدد کو آؤں گا: جب اعمال نامے تقسیم ہوں گے، میزان پر، اور صراط پر۔"
قرآن کریم نے بھی اہل بیت علیہم السلام کی مودت کو دین کا اجر قرار دیا ہے:
"قُل لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى" (شوریٰ: 23)
زیارت کے سماجی اثرات
حجۃ الاسلام پارچہ باف کے مطابق زیارت نہ صرف انفرادی تربیت کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد، اخوت اور دینی شعور کو بھی فروغ دیتی ہے۔
انفاق و فلاحی کاموں کی اہمیت
اسلام ایک ہمہ جہت دین ہے جو عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرتی ذمہ داریوں پر بھی زور دیتا ہے۔ قرآن مجید میں انفاق کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے:
"مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ..." (بقرہ: 261)
مدارس، اسپتالوں کی تعمیر، فقراء کی مدد اور معاشرتی مسائل کے حل کو دین میں اہم مقام حاصل ہے۔
ترجیح کی بنیاد کیا ہو؟
حجۃ الاسلام پارچہ باف کے مطابق، ترجیح کا تعین فرد کی مالی حیثیت، نیت، اور معاشرتی حالات کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے:
اگر کوئی مالی طور پر محدود ہے تو پہلے معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنا بہتر ہے۔
اگر زیارت کسی فرد کی زندگی میں روحانی انقلاب لا سکتی ہے تو وہ بھی اہم ہے۔
دونوں اعمال خیر ہیں، ان میں تضاد نہیں بلکہ توازن اور اعتدال کی ضرورت ہے۔
نتیجہ
زیارت اور انفاق دونوں ہی اسلام میں اہم اور اجر و ثواب کے حامل اعمال ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے حالات، نیت، اور معاشرتی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن فیصلہ کرے، تاکہ نہ صرف روحانیت حاصل ہو بلکہ معاشرہ بھی اس کے وجود سے فیض یاب ہو۔









آپ کا تبصرہ