تحریر: مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | افق سامراء پر سیپدۂ سحری نمودار ہونے والی تھی نسیم سحر ہولے ہولے چل رہی تھی مرغان خوش الحان سحر انگیز نغمے ہواؤں میں بکھیر رہے تھے ہدہد زماں فخر سلیمان کی آمد پر پروں کو بچھائے ہوئے تھا ناقۂ صالح فخر صالح پر تمنائے حریت کررہا تھا آدم کی صفویت انتخاب کی آرزو کررہی تھی نوح کی کشتی ان کے در سے نجات کا سامان ڈھونڈ رہی تھی ابراہیم کی خلت عسکری کے لشکر کو دیکھ کر ششدر تھے اور وقت کے اہرمن کو سرنگوں کرنے کے درپے تھے موسی کی ہیبت عسکری سے رعب و دبدبہ کی التجا کررہے تھے عیسی مردوں کو زندگی بخش کر حیات ابدی کی روح جاویدان مانگ رہے تھے عسکری سراپا نبوت و امامت کی جلوہ گاہ تھا نجات زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی خورشید تاباں کی سرخی حدیثہ خاتون کی آنکھوں کی چمک بن چکی تھی شعاعیں در امام نقی پر جبہہ سائی کررہی تھی
تمنائے تحریر پر قرطاس محبت کی لالہ زاری تھی۔ خودساختہ سماجی سازشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی تاریکیوں کو اجالا دکھانے کی سعادت عسکری کی بے کراں برکتوں سے نصیب ہوئی خیالی دلکش منظروں کو خاک میں ملانے کی رغبت کو بروئے کار اسی مبارک ہستی کے وجود سے ہوئی ستاروں کی انجمن کو خورشید کی شعاعوں کا علمبردار اسی نے بنایا مظلومیت کے افق پر آہ و زاری کی سحر امید کی فضائوں کو اسی نے چلایا گویا عاشق و معشوق کے راز و نیاز کے سکوت کی تسبیح میں پرویا تھاعسکری ہمیشہ پلکوں کی شبستان میں بسیرا کرتے ہیں وہ صحیفۂ محبت کے جزدان میں جلوہ افروز ہیں شاعر نے اس شبستان عشق کی جلوہ گری کو کچھ یوں تحریر کیا ہے ۔
اپنی پلکوں کے شبستان میں رکھا ہے تمہیں ؛
تم صحیفہ ہو سو جزدان میں رکھا ہے تمہیں
اب یہ حال ہوگیا ہے کہ قلم سے نکل کر تتلیاں افسانہء شہادت سناتے ہیں ۔اس داستان قلم و دوات کے مضمون حیات کو موت کے چنگل سے حریت کا لباس دینے کی کوشش کی ہے ۔مضمون کے گمگشتہ صحرا میں الفاظ کو رعنائیاں دی ہیں ۔یہ ان حالات میں تھا جب کلام کے آنگن میں الفاظ رقصاں تھے سخنوری کے بحرزخار کے قطرے قرطاس شہادت پر فخر کرتے نظر آرہے تھے ۔میری محبت ولا کا یہ عالم تھا کہ میں ہجوم کا حصہ بننے سے دور رہا جہاں تنہائیوں کو بدنام کیا جاتا ہے ۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
شاید میں اس سماج کا حصہ ضرور ہوں ؛
لیکن غلط رسوم کا حصہ نہیں بنا؛
باد سحر ہوں اپنے ضمیر و خمیر میں ؛
اس واسطے سموم کا حصہ نہیں بنا؛
موج خفی ہوں سینہ بہ سینہ ہے میرا فیض؛
میں ظاہری علوم کا حصہ نہیں بنا ؛
میرا الگ سماج ہے میرا الگ مزاج ؛
میں محفلوں کی دھوم کا حصہ نہیں بنا
امام حسن عسکری علیہ السلام کی سوانح عمری پر ایک طائرانہ جائزہ:
امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت سامراء 232 ھجری قمری میں ہوئی ۔آپ کے والد ماجد کا امام علی نقی علیہ السلام اور والدہ کا نام " حدیثہ یا سوسن تھا آپ کے مشہور القاب زکی ، اور نقی تھا اور آپ کی سامراء کے عسکر محلہ میں ولادت ہوئی اس لئے آپ کو عسکری کہا جاتا ہے آپ کی کنیت" ابو محمد " تھی ۔ آپ نے چھ سال امامت فرمائی اور صرف 28 سال کی مختصر عمر 260 ہجری قمری میں شہید ہوگئے ۔آپ کی پربرکت زندگی میں بنی عباس کے چھ خلفاء کا سابقہ پڑا ۔ " متوکل " ، " منتصر" ، " مستعین " ، "معتز" ، " مہتدی " ، اور معتمد کے زمانے میں آپ شہید کئے گئے ۔ ( بحار الانوار ، ج50 ، ص 239 )
ویسے تو امام مجموع کمال صفات حمیدہ ہیں لیکن ہم قارئین کو امام کی ایک صفت کی طرف توجہ دلائیں گے ۔ اور وہ امام کا معجزنما ہونا ہے ۔ جو ان کی زندگی میں مختلف مقامات پر نظر آتی ہے ۔
الف: خورشید درخشاں
قطب راوندی کتاب " الخرائج" میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں مسلسل دیکھتا تھا کہ ان کے سر پر ایک نور ساطع ہے جو آسمان کی طرف جارہا ہے اور بہت درخشاں ہے جبکہ امام سو رہے تھے۔
( الخرائج ، قطب الدین ،راوندی، ج 1, ص 443؛ کشف الغمۃ ، ج2 ،ص 426 )
ابن جریر نے امام حسن عسکری علیہ السّلام سے عرض کیا کہ ایک ایسا انوکھا معجزہ مجھے دکھائیے تاکہ میں دوسروں کو یہ بتا سکوں۔ امام نے فرمایا: یابن جریر ، لعلک ترتد!
اے جریر کے بیٹے ، تم شک و شبہ میں گرفتار ہوگئے ہو؟
میں نے تین مرتبہ قسم کھائی کہ ایسا نہیں ہے ، پھر امام اپنی جانماز سے نیچے کی طرف چلے گئے اور غائب ہو گئے ، اور پھر کچھ دیر بعد واپس آئے اور ان کے دست مبارک میں ایک بڑی سی مچھلی تھی ، اور پھر امام نے فرمایا: اس مچھلی کو ساتویں سمندر سے لایا ہوں ۔
اس مچھلی کو میں نے لیا اور مدینہ السلام لے آیا ، اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ تناول کیا ۔( دلائل الامامۃ ، ص 426)
ج: سایہ کا نہ ہونا
حمیری کتاب " دلائل" میں نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو دیکھا کہ بازار میں جارہے ہیں اور ان کا کوئی سایہ نہیں ہے ۔
( دلائل الامامۃ ، 426)
د: امام کا علم غیب
علی بن زید کہتے ہیں کہ ایک دن امام حسن عسکری علیہ السّلام کی خدمت میں پہنچا اور بیٹھ گیا اچانک سے مجھے یاد آیا کہ میں نے رومال میں پچاس دینار رکھی تھی اور اب وہ رومال میرے جیب میں نہیں ہے میں پریشان تھا لیکن اس پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور اپنی زبان سے کچھ بھی بیان نہیں کیا ۔ حضرت نے فرمایا: تم پریشان نہ ہو ،وہ رومال تمہارے بڑے بھائی کے پاس ہے جب تم اٹھ رہے تھے تو تمہارے جیب سے گر گیا اور تمہارے بھائی نے اٹھا لیا ۔ انشاء اللہ وہ محفوظ ہے ۔ جب میں گھر آیا تو میرے بھائی نے وہ رومال مجھے دیدیا ۔(بحار الانوار ، ج50 ، ص272)









آپ کا تبصرہ