۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مجید مجیدی

حوزہ/مجید مجیدی کے ڈائرکشن میں بننے والی فلم محمد رسول اللہ(ص) ایک بہترین فلم ہے، اعتراض کرنے والے افراد کٹھ ملاؤں کے بہکاوے میں نہ آئیں کیونکہ بغیر فلم دیکھے ہی اعتراض کرنا ایک احمقانہ اقدام ہے، فلم میں پیغمبر اسلام(ص) کی ابتدائی زندگی کو بڑے ہی عزت و احترام کے ساتھ پردے پر اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، درگاہ کچھوچھہ کے سجادہ نشین مولانا سید شاہ معین الدین اشرف(معین میاں) کے زیر قیادت ممبئی میں ہونے والے احتجاجی راستہ روکو آندولن کو مہاراشٹرا حکومت اور ممبئی انتظامیہ کے نمائندگان سے ہوئی بات چیت میں یہ یقین دہانی کرائے جانے کے بعد کہ فلم پر پابندی عائد کردی جائے گی آندولن کو ملتوی کردیا گیا۔

یہ جانکاری دیتے ہوئے پیرزادگان انتظامیہ کمیٹی مخدوم اشرف کچھوچھہ کے نائب صدر سید آل مصطفیٰ نے بتایا کہ فلم ڈائرکٹر مجید مجیدی نے جو فلم محمد رسول اللہ(ص) بنائی ہے اسکو ڈبنگ کرکے ۲۱جولائی ۲۰۲۰ کو ریلیز کرنے کی تشہیر کی جارہی ہے اس خبر کو پاتے ہی اس فلم کے خلاف ۱۵جولائی کو راستہ روکو آندولن کا اعلان کیا گیا تھا اس اعلانیے کے بعد حکومت انتظامیہ نے یقین دلایا کہ فلم پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

مرکز تحفظ اسلام ہند کا کہنا ہے کہ  21 /جولائی 2020ء کو ہندوستان میں پریمئیر شو کے ذریعے ریلیز کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس فلم میں ایرانی آرٹسٹوں اور ایک ہندوستانی موسیقار نے حصہ لیا ہے۔ اس فلم میں حضور(ص)اور حضرات صحابہؓ کی نقالی کی گئی ہے۔اس پررد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ یہ کوئی کارثواب اور دین اسلام کی خدمت نہیں، بلکہ پیغمبر اسلام اور حضرات صحابہ کی شان میں کھلی گستاخی اور سراسر اسلام مخالف بدترین حرکت ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت یوسف علیہم السلام کی زندگیوں پر فلمیں بنائی گئیں جس پر مسلمانوں نے کافی احتجاج کیا اور آوازیں بلند کرتے ہوئے ان پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔اس کے باوجود کہ یہ سلسلہ روکا جاتا اسلام دشمن طاقتوں نے امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ پر فلم بنائی اور اب ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اسے ریلیز کرنے کی تیاری کی خبر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی ایک گھناؤنی سازش کے مانند ہے۔محمد فرقان نے کہا کہ یہ جہاں ایک گھناؤنی سازش ہے وہیں ناموس رسالتؐ کی شان اقدس میں گستاخی کے مترادف ہے۔جسے مسلمان کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ ہم مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے حکومت ہند سینسر بورڈ آف انڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس فلم پر پابندی عائد کرے۔ نیز امت مسلمہ کے ہر ایک فرد سے بھی اس فلم کا بائیکاٹ کرنے اور مسلمانوں کی ہر ایک دینی، ملی و سماجی تنظیموں سے بھی اس گھناؤنی سازش کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس پر پابندی کا حکومت سے مطالبہ کرنے کیلئے اپیل کی۔انہوں نے کہا کہ انبیاء کی زندگی کو فلمانا رنگ دیکر انکی تصویر اور شبیہ بنانا قطعی ناجائز اور غیر شرعی و غیر اسلامی فعل ہے۔جسکو روکنا کسی ایک فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی مجموعی ذمہ داری ہے، جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے کہا کہ نبی کریم(ص) کی شان پر کوئی حرف آئے اور ہم خاموش رہیں اس سے بہتر ہیکہ اس سے پہلے ہمیں موت آجائے!

اطلاعات کے مطابق اس فلم کی تشہیر مڈ ڈے اخبار نے کی تھی اس کی خبر پاتے ہی رضا اکیڈمی نے فوری طور پر 21 جولائی 2020 کو ریلیز ہونے والی۔فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس اکیڈمی کے چئیرمین محمد سعید نوری نے علماء  کی میٹنگ بلوائی۔اور کہا کہ آئے دن اس طرح کے لوگ ناموس رسالت پر حملہ۔آور ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں۔توہین آمیز بیانات دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کو۔شدید تکلیف ہوتی ہے انہوں نے کہا ہم اپنی جان قربان کر دیں گے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ادنی سی بھی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے-غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق محمد سعید نوری نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہند سینسر بورڈ آف انڈیا فوری طور ہر اس فلم۔پر پابندی عائد کرے ورنہ مسلمان سڑکوں پر سرپا احتجاج بنیں گے اور ساتھ ہی انہوں نے حکومت ہند اور وزیر داخلہ سے اس فلم پر فوری پابندی عائد کرنے اور اے آر رحمن پر توہین رسالت پر مدد کرنے کے سلسلے میں مقدمہ۔درج کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں کوئی اس قسم کے جرم کا ارتکاب کوئی ہندوستانی نہ کر سکے اور اس فلم پر پوری دنیا میں پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا-

واضح رہے کہ مجید مجیدی کی ہدایتکاری میں بنائی گئی اس 171منٹ دورانیے کی فلم پر چالیس ملین ڈالر (چھتیس ملین یورو) کے برابر لاگت آئی ہے۔ بصری حوالوں سے چونکا دینے والی اس فلم کی تیاری کے لیے ایرانی حکومت نے بھی سرمایہ فراہم کیا۔ ایران میں آج تک بنائی جانے والی اس سب سے زیادہ لاگت والی تاریخی فلم کو سات برس کے عرصے میں مکمل کیا گیا۔

فلم کے ڈائریکٹر مجیدی نے بتایا ہے کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کا فروغ ہے، جنہیں انتہا پسندوں نے مسخ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بدقسمتی سے موجودہ وقت میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد پرستانہ نظریات، انتہا پسندی اور تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‘‘ مونٹریال میں اس فلم کے بین الاقوامی پریمیئر کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مجیدی نے کہا تھا، ’’دہشت گرد گروہ دہشت گردی کی بہیمانہ کارروائیاں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے کر رہے ہیں، جو اصل میں اسلام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‘‘

Bildergalerie Iran KW35

مجید مجید کی ہدایتکاری میں بنائی گئی اس 171منٹ دورانیے کی فلم پر چالیس ملین ڈالر کے برابر لاگت آئی ہے۔

ہوشربا عکاسی

مجید مجیدی کے بقول، ’’اسلام امن، دوستی اور محبت کا پیغام دیتا ہے۔ میں نے اپنی اس فلم میں یہی دکھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ’محمد‘ نامی اس فلم میں چودہ سو سال پہلے کی عرب سرزمین دکھائی گئی ہے۔ اس فلم میں پیغمبر اسلام کی ولادت سے قبل کے حالات سے لے کر ان کی زندگی کے لڑکپن تک کے دور کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس فلم کے لیے بھارت کے معروف آسکر انعام یافتہ موسیقار اللہ رکھا رحمان (اے آر رحمان) کے علاوہ اطالوی عکس بند (سینماٹوگرافر) ویتوریو ستورارو کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ ستورارو بھی ماضی میں اپنی شاندار عکس بندی پر تین مرتبہ آسکر انعام حاصل کر چکے ہیں۔

معجزات سے پُر اس فلم کے ایک منظر میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بھی انتہائی مہارت اور محو کر دینے والی معجزاتی کیفیت کے ساتھ عکس بند کیا گیا ہے، جب مکہ میں ہاتھیوں کے ساتھ حملہ کرنے والے یمنی قبائل پر پرندوں نے کنکریاں پھینک کر حملہ آوروں کے پورے لشکر کو نیست و نابود کر دیا تھا۔ اس تاریخی واقعے کا تذکرہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں ایک سورت کی صورت میں بھی ملتا ہے۔ اس فلم میں وہ تاریخی معجزہ بھی انتہائی جذباتی اور متاثر کن انداز میں عکس بند کیا گیا ہے، جب پیغمبر اسلام نے اپنے پچپن میں اپنی بیمار رضاعی والدہ کو ہاتھ کے صرف ایک لمس کے ساتھ ہی تندرست کر دیا تھا۔

تہران کے ایک سینما گھر کے باہر موجود چالیس سالہ ماہشا رسول زادے نے اے ایف پی کو بتایا تھا، ’’یہ فلم ہمیں جذبات کے بہاؤ میں لے گئی۔‘‘ اٹھائیس اگست بروز جمعرات اس فلم کا پہلا شو گیارہ بجے شروع ہوا، جس میں سینما تقریباﹰ بھرا ہوا تھا لیکن اس فلم کے دوسرے اور تیسرے شو کی ٹکٹیں پہلے ہی فروخت ہو گئیں اور دونوں شو ہاؤس فل رہے۔ اپنے کنبے کے ساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینما پہنچنے والے ابوفضل فتحی کے بقول انہیں یہ فلم بہت زیادہ پسند آئی تھی، ’’جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے میرے خیال میں ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے یہ انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

دوسری طرف کینیڈا کے شہر مونٹریال میں واقع امپیریل سینما، جہاں اس فلم کی نمائش کی جا رہی ہے، کے باہر پچاس مظاہرین نے اس فلم کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا، ان مظاہرین نے مجیدی پر الزام عائد کیا کہ وہ اس فلم سے ایرانی پراپیگنڈا کو فروغ دینے کی کوشش میں ہیں۔

پیغمبر اسلام(ص) کی زندگی پر ’محمد‘ دوسری اہم پروڈکشن ہے۔ اس سے قبل شامی نژاد امریکی فلم ساز مصطفیٰ عکاد نے 1976ء میں ’محمد، دا میسنجر آف گاڈ‘ نامی فلم بنائی تھی، جو  ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی پر قریب چالیس برس بعد بنائی گئی اس دوسری اہم ترین فلم پر پہلی فلم کے مقابلے میں تقریباﹰ بیس گنا زیادہ خرچ آیا۔

Iran - Filmplakat Mohammad

تاہم چند تنقیدی حلقوں نے فلم ’محمد‘ پر کچھ اعتراضات بھی کیے ہیں۔ فلمسازی کی تعلیم حاصل کرنے والی تئیس سالہ کومل ارجمندی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اس فلم کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ لیکن ایمانداری کے ساتھ بات کی جائے تو میری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ میں چاہتی تھی کہ اس موضوع پر کوئی فلم بنائی جائے تو وہ عکاد کی فلم سے بہتر ہو۔‘‘

اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ پروگرام کے مطابق تین حصوں پر مشتمل ’محمد‘ نامی اس فلم سیریز کے باقی دو حصے کب فلمائے جائیں گے اور کب وہ سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ مغربی ممالک میں شائع کیے گئے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں پر ایران کی شیعہ حکومت نے بھی سخت احتجاج کیا تھا تاہم شیعہ مسلمان سنی مسلمانوں کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کی ذات، ان کی شبیہ اور اسلامی تاریخ کی دیگر اہم مذہبی شخصیات کی عکاسی کے حوالے سے قدرے اعتدال پسندانہ رویہ رکھتے ہیں۔

مجیدی نے کس کے کھیل کو بگاڑا ہے؟
مجید مجیدی کی تازترین شاہکار کے سرکاری اجرا کو ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ یہ دنیا کے اخبار کی سرخیوں پر چھا گئی ہے ۔کچھ مونٹریل فیسٹیول میں جو اس کا افتتاحیہ ہوا ہے اس کی خبروں کو نشر کر رہے ہیں ۔کچھ نے بائیکاٹ کا طریقہ اختیار کیا ہے ،اور وہ بھی اس فیلم کا بائیکاٹ کہ جس کے بارے میں پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ یہ عالم اسلام کے سینما میں نئے سال کا سب سے بڑا دھماکہ ہے ۔بعض دوسروں نے دوسرا ہی راستہ اپنایا ہے اور وہ اس پر تنقید اور اس کی مخالفت میں قلم فرسائی کر رہے ہیں ۔ یہ آخری طریقہ اس گروہ نے اختیار کیا ہے جو اس فیلم کے مخالف اصلی ذرائع ابلاغ کا گروہ ہے ۔
سب سے اہم مطالب جو اس فیلم (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بارے میں اب تک ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئے ہیں وہ دو محوروں پر استوار ہیں :
پہلا محور یہ ہے کہ اس فیلم کے بنانے پر بھاری رقم خرچ ہوئی ہے ،مغربی ایسی حالت میں اس ڈھنڈورے کو پیٹ رہے ہیں کہ جب ہالیوڈ میں بننے والی فیلموں پر جتنا پیسہ لگتا ہے یہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے یا اس جیسی کسی ایک فیلم کے پروجیکٹ کے برابر ہے ۔
دوسرا محور :جامعہ الازہر مصر میں کچھ لوگوں نے اس فیلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دکھائے جانے پر بے کار کے اعتراض کیے ہیں ،جن کو یہ ذرائع ابلاغ بڑھاوا دے رہے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعتراض ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس فیلم کو دیکھا ہی نہیں ،اور ان کا دعوی اس فیلم کی فضا سے بالکل مربوط نہیں ہے ،وہ صرف اپنی تخیل پردازی کی بنا پر اتنی تندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔البتہ معمول کے مطابق بہت سارے افراد کے سامنے اس فیلم  کے جھوٹے مناظر بنا کر پیش کیے گئے ہیں اور ان کو عجیب و غریب باتیں بتائی گئی ہیں ۔ یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ جب وہ اس فیلم کو دیکھیں گے تو اس کے بارے میں کچھ لوگوں کے نظریات بدل جائیں گے ۔
ایسا لگتا ہے کہ مغربی ذرائع کی اصلی مشکل وہ نہیں ہے جو وہ دکھا رہے ہیں ،بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے جسے وہ بتا نہیں رہے ہیں ،ان کے لیے مشکل ہے لیکن ان کی کوشش یہ ہے کہ اس طرح کے بے کار کے بہانے بنا کر اور ایسے اعتراضات پیش کر کے کہ جو کھوکھلے ہیں وہ اس ایرانی ثقافتی اسلامی اثر پر انگلی اٹھا سکیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی اصلی وجہ کیا ہے ؟
حضرت آمنہ (سلام اللہ علیہا) اور حضرت حلیمہ (سلام اللہ علیہا) کے اس فیلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ مہربانی کے مناظر
اس سوال کا جواب ان لوگوں کے لیے جو اس فیلم کو دیکھ رہے ہوں گے زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔مجیدی کی اس فیلم میں جو ہنر مندانہ مناظر پیش کیے گئے ہیں وہ مغربی ذرائع ابلاغ کی اس فیلم کی مخالفت کی اصلی وجہ ہیں جس کی دو آسان سی دلیلیں ہیں :
پہلی دلیل ،دین اسلام میں جو انسانیات ، کرامات اور مہربانی اور اخلاقیات ہیں ان کی منظر کشی اور پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالمین کے لیے رحمت ہونے کی ماہیت کو پیش کیا جانا ہے کہ جو اس فیلم میں موجود ہے ۔وہ بھی ٹھیک ایسے دنوں میں کہ جب ہالیوڈ سینما اور مغربی ذرائع اسلام کی غیر واقعی اور خشونت آمیز اور انتہا پسند تصویر پیش کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔ہالیوڈ کی فیلموں میں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں لگاتار ،دہشت گردی ، خود کش اور انسانیت کے خلاف حملوں ، قتل و غارت گری ، اور یرغمال بنانے جیسے مسائل کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جا رہا ہے ،اور اس کے ثبوت میں وہ اپنے بنائے ہوئے انتہا پسند گروہوں کو کہ جو ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہیں پیش کرنے سے بالکل بھی دریغ نہیں کرتے ۔ غیر سرکاری تنظیمیں بنانا اور خود ساختہ حکومتیں تشکیل دینا دنیا کے لوگوں کی رائے عامہ کو  حقیقی اسلام سے منحرف کرنے کا صہیونیوں کا طریقہ کار رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس روش کے بارے میں کافی بحث ہو چکی ہے اور اس کے لیے اس سے زیادہ تحلیل اور تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی فیلم بنانا جمہوری اسلامی کا سب سے عاقلانہ اقدام تھا کہ جو مجید مجیدی کی کوشش سے ایسے وقت میں ملتوں کو ہوشیار کرنے کے لیے کارآمد ثابت ہوا   کہ جب دولت اسلامی عراق و شامات( داعش) نامی خونخوار ٹولہ اور تکفیری، ذرائع ابلاغ کے پاس اسلام سے متنفر کرنے اور خوف زدہ کرنے کا سب سے پسندیدہ ذریعہ ہیں ۔
محسن تنابندہ کے کردار کے مناظر کہ جس کو یہودیوں کے معبد کی طرف سے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کی  محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی فیلم کی مخالفت کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے ان کے اسلام سے خوف زدہ کرنے کے منصوبے کا کھیل بگاڑ دیا ہے اور جو انہوں نے اسلام کی الٹی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی تھی اس پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے :
دوسری دلیل ،ان کی مخالفت کی وجہ وہ مختلف تفسیر ہے کہ جو محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۱۴۰۰ سال بعد تاریخ اسلام کی پیش کی ہے ،یہ وہ تفسیر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت رسول اللہ علیہم السلام پر جو کچھ بیتا تھا اور اس  کے بارے میں جو ابہام تھا اور کسی نے اس کو دور نہیں کیا تھا اس کو دور کرتی ہے ۔انتہا پسند یہودی کہ جن کو آج ان کے عجیب و غریب رجحانات کی وجہ سے صہیونی کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دشمنی کا باعث اور بانی ہونے کے سلسلے میں کبھی بھی اتنا غور و خوض نہیں کیا گیا تھا۔
کبھی بھی یہ سوال اور موضوع نہیں اٹھایا گیا کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی مار ڈالا گیا ؟ کیوں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت آمنہ کے تندرست اور سالم ہونے کے باوجود ایام طفولت میں ہی ان سے جدا ہونا پڑا؟ اگر ان کی سلامتی کے بارے میں شک تھا بھی اور  آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دایہ کی ضرورت تھی تو کیوں اس دایہ نے ماں کے ساتھ رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیکھ ریکھ نہیں کی ؟ کیوں فرزند  کو ماں سے اس وقت الگ ہونا پڑا کہ جب ماں کو اس سے والہانہ محبت تھی اور وہاں جا کر رہنا پڑا کہ جس جگہ کی کسی کو خبر نہیں تھی ؟ یہ سوال ہمیشہ اسلامی منبروں سے اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن اس بار مجیدی نے فریاد بلند کی ہے اور اس کو زبان زد ہر خاص و عام کر دیا ہے ۔ اس نے بڑی شہامت کے ساتھ میر باقری جیسے محقق کے ساتھ مل کر شیعوں اور سنیوں کے مآخذ سے دلایل اکٹھے کر کے یہودیوں کی اس سازش کو طشت از بام کیا ہے کہ جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو روکنے کے لیے رچی تھی ۔
تاریخ کے صفحات میں اس کے بارے میں بہت ساری دلیلیں موجود ہیں ،جن کو یہودی کبھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگیں۔ اب مجیدی نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور صحیح نشانہ لگایا ہے اور یہ ان کی اس تازہ ترین تخلیق پر مغربی ذرائع ابلاغ کے حملے کی اہم ترین وجہ ہے ۔کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے اصلی اسپانسر ہمیشہ صہیونی نظریات کے حامل یہودی رہے ہیں ۔ مجیدی نے دنیا کے لوگوں کے اذہان کو اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کو انتہا پسند یہودیوں کے مکارانہ رویے سے کہ جس کو اسلام کی مخالفت میں انہوں نے اپنا رکھا ہے کہ جو اصل میں صہیونی ہیں آگاہ کیا ہے شاید محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی فیلم کی یہی مستند روایت مغربی ذرائع کو مجبور کرے گی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اسلام کو پہچاننے کے لیے با مقصد منصوبہ بندی سے کام لیں ۔اور یہی دلیل مسلمانوں کو دشمنوں کے فرقہ وارانہ دعووں کی طرف متوجہ کرے گی اور ان کو یہ بتائے گی کہ مسلمانوں کا اصلی دشمن کون ہے ؟ بعید نہیں ہے کہ عالم اسلام سے منسوب کچھ افراد جو اس فیلم کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی مخالفت بناوٹی اور کسی کی سفارش کی بنا پر ہو۔

اگر آپ کو اسلامی تاریخ میں دلچسپی ہے تو پھر آپ کو یہ فلم ضرور دیکھنا چاہیئے، یہ فلم بڑے ہی عزت و احترام کے ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ کے ابتدائی دنوں اور بچپن کے حالات کو پردے پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس فلم سے کسی کے جذبۂ ایمانی کو ٹھیس پہنچنے والا نہیں ہے بلکہ ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .