۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/مجمع علماءو خطباء، حیدر آباد دکن، اپنے علمی و مدلّل جواب کے ہمراہ ایک بار پھر اس بدنسب شخص کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس  ملاّ پر قانونی کاررواہی کرکے اُسے اس قسم کی گستاخیوں سے روک لے ورنہ دنیا بھر کے موالیان اہلبیت (ع) اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،گستاخ عصمت کبری حضرت فاطمہ زہرا (ص) و خاندان عصمت و طہارت (ع) ،پاکستان کے نادان ملاّ آصف اشرف جلالی نے ایک بار پھر دریدہ دہنی کرتے ہوئے اس مرتبہ امیر المومنینؑ، قائد الغر المحجلیں، امام المتقین، یعسوب الدین حضرت علی بن ابی طالبؑ کی شان میں وہی گستاخی دہرائی ہے جو اس نے کچھ عرصہ قبل شہزادیٔ کونین مادر حسنینؑ کی شان میں کی تھی اور اپنے خیال خام میں ان معصوم ہستیوں کی عصمت کو زیر سوال لاکر خلافت و ملوکیت کی ناقابل عفو خطاؤں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ 

اس سے قبل بھی معصومہ دو عالم (س) کی عصمت کے سلسلہ میں اس کی جسارت پر پوری دنیا کے غیور مسلمانوں نے سخت مذمت اور سرزنش کی تھی اس کے باوجود اس نے اپنی غلطی پر معافی مانگنے کے بجائے اس پر اصرار کرتے ہوئے اپنی نجس زبان سے مولا علی ؑ کی شان میں جسارت کی ہے اور ان کی عصمت پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے اور تمام شیعیان حیدر کرارؑ کو یہ چیلنج کیا ہے کہ میرے دعوے کا علمی اور مدلّل جواب پیش کریں۔

صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ نے آصف جلالی کی مسلسل اھلبیت علیہم السلام کی شان میں گستاخی پر سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی سرزنش اور تنبیہ کے باوجود بھی اس خبیث النفس کی عقل اب تک ٹھکانہ نہیں آئی ہے، کیونکہ اب یہ بغض اہلبیت (ع) اور اپنی منافقت کے سبب ان آیات قرآنی  کا مصداق بن چکا ہے’’خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَ عَلیٰ سَمْعِھِمْ وَ عَلیٰ أَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَّ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ‘‘ یعنی ان کے دلوں اور سماعتوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور ان کی نگاہوں پر پردے پڑ چکے ہیں اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے (سورہ بقرہ آیت ۷) اور’’صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لاَ یَرْجِعُوْن‘‘ یعنی وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اور وہ (راہ راست پر) واپس آنے والے نہیں ہیں  (سورہ بقرہ آیت ۱۸)   

مولانا علی حیدر فرشتہ نے گستاخ آصف اشرف جلالی کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو میں اس نادان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ؛
نہج البلاغہ کے جس خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ خطبہ نمبر ۲۱۶ ہے، اگر کوئی انسان شروع سے آخر تک  اس خطبہ  کا مطالعہ کرے تو بخوبی و باآسانی یہ درک کر سکتا ہے کہ اس خطبہ کا منظر اور پس منظر کیا ہے اور اس کے مطابق حضرت علی ؑ کے مبارک الفاظ کے معانی و مفاہیم کیا ہیں؟ !
بہر حال  جس عبارت کا حوالہ دیا گیا اسی میں لفظ "الا" کے بعد کے فقرہ  کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ یہ ایک سراسر علمی خیانت ہے جو اس نطفۂ ناتحقیق کی پلید وپست شخصیت کی ترجمانی کرتی ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی سورہ نساء میں’’  یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لَا تَقْرَبُوْا الصَّلَاۃَ وَ أَنْتُمْ سُکَارَیٰ‘‘  کی آیت سے صرف اس حصہ ’’ لَا تَقْرَبُوْا الصَّلَاۃَ ‘‘ کو الگ کرکے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ اللہ خود قرآن میں نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے کہ ’’ نماز کے قریب نہ جاؤ‘‘ جبکہ اس کا اگلا حصہ اگر ملا کر پڑھا جائے تو قرآن در اصل یہ ارشاد فرما رہا ہے: کہ " نشہ کی حالت میں ہرگز نماز کے قریب نہ جاؤ‘‘۔

چنانچہ حضرت علی ؑ کی پوری عبارت اس طرح ہے : ’’ فَاِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ أَنْ اُخْطِئَ وَ لَا آمَنُ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِی اِلَّاأَنْ یَکْفِیَ اللہُ مِنْ نَفْسِی مَا ھُوَ أَمْلَکُ بِهِ مِنِّی ‘‘   یعنی میں بذات خود اس بات سے مافوق نہیں ہوں کہ خطا نہ کروں اوراپنے کاموں میں بھی خطا سے محفوظ نہیں ہوں سوائے یہ کہ اللہ میری ذات کے لئے کفایت کرتا ہے یعنی وہ مجھے خطاؤں سے محفوظ رکھتا ہے جو کہ میرے امور پر مجھ سے زیادہ اختیاررکھتا ہے۔ 

اس عبارت سے بالکل واضح ہے کہ حضرت علی ؑ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ میں بحیثیت ایک انسان کے  یوں تو خطاؤں سے مبرا نہیں ہوں لیکن یہ عصمت کا ملکہ میرے لئے عطائے الہی ہے اور وہی مجھے ہر قسم کی خطاؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔ لہٰذا مولا کا یہ کلام نہ صرف یہ کہ اُن کی عصمت کے منافی نہیں ہے بلکہ عصمت پر دلیل ہے۔ 

مگر جن  افراد کے دلوں میں کجی  اور مرض ہو وہ ایسی واضح عبارتوں سے بھی اپنے من موافق معانی نکالتےہیں تاکہ معاشرہ میں  فتنہ بپا کر سکیں ’’  فَأَمَّا اَلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مٰا تَشٰابَهَ مِنْهُ اِبْتِغٰاءَ اَلْفِتْنَةِ ‘‘﴿آل‏عمران‏، 7﴾ 
یہ وہی لوگ ہیں جو سورہ کہف کی آیۂ کریمہ ’’ قُلْ إِنَّمٰا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحىٰ إِلَيَّ ‘‘ سے ’’یُوْحیٰ اِلَیَّ‘‘ کو نظر انداز کرکے حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ کو  اپنے جیسا بشر کہتے ہیں۔

جبکہ امیر المومنینؑ کی مذکورہ عبارت حضرت یوسف ؑ کے اس قول کے مشابہ ہے، جسے قرآن مجید نے اس طرح نقل کیا ہے:  ’’ وَ مٰا أُبَرِّیُٔ نَفْسِي إِنَّ اَلنَّفْسَ لَأَمّٰارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاّٰ مٰا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ  ‘‘‘﴿يوسف‏، 53﴾  یعنی میں اپنے آپ کو  گناہوں سے مبرا اور پاک نہیں مانتا ہوں ، بیشک نفس (امارہ) برائیوں کا حکم دینے والا ہے سوائے یہ کہ میرے رب نے مجھ پر رحم کر دیا  ۔ اس آیت میں جس طرح ’’ إِلاّٰ مٰا رَحِمَ رَبِّي ‘‘حضرت یوسف ؑکی عصمت کو بیان کر رہا ہے اسی طرح حضرت علی ؑ کے بیان میں ’’ اِلَّاأَنْ یَکْفِیَ اللہُ ‘‘  ان کی عصمت کو بیان کر رہا ہے۔

اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہےکہ بیشک ہم حضرت علی ؑ کو بموجب آیۂ مباہلہ سوائے رسول اسلامؐ کے دیگر تمام انبیاء کرام سے افضل مانتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ  شیعہ اور اہل سنت دونوں کے نزدیک متفقہ طور پر یہ بات ثابت ہے کہ رسول خداؐ مباہلہ میں بعنوان ’’انفسنا‘‘ حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور جو ’’نفس و جان رسولؐ‘‘ ہو وہ اسی طرح تمام انبیاء کرام سے افضل ہوگا جس طرح سردار انبیاء افضل ہیں مگر یہ کہ کوئی رسول اکرم (ص) کو سید المرسلین نہ تسلیم کرے حالانکہ کوئی مسلمان ایسا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔  

امید ہے کہ حق پرست و حق جو افراد ان دلائل سے بہرہ مند و مستفیذ ہوں گے اور جن کے دلوں میں مرض ہے وہ ان حقائق کو جاننے کے بعد مزید مرض منافقت اور بغض میں مبتلا ہوں گے اور غیظ و غضب سے اپنی انگلیاں چبائیں گے ۔ 
مجمع علماءو خطباء، حیدر آباد دکن، اپنے علمی و مدلّل جواب کے ہمراہ ایک بار پھر اس بدنسب شخص کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس  ملاّ پر قانونی کاررواہی کرکے اُسے اس قسم کی گستاخیوں سے روک لے ورنہ دنیا بھر کے موالیان اہلبیت (ع) اس کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے جس میں حکومت پاکستان کو بھی فریق بنایا جا سکتا ہے اور اس ناصبی کی وجہ سے ذلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
والسلام علیٰ من اتبع الھدی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .